1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saqib Malik/
  4. Valentine Day

Valentine Day

ویلنٹائن ڈے

پیش لفظ "اس بار تو سیاست اور الیکشن نے ویلینٹائن ڈے کو بھی" گہنا" دیا ورنہ ہر برس لبرلز اور مذہبی سورما خوب گھتم گتھا ہوتے تھے۔ منافقت اور تضاد بیانی میں گو دونوں ید چولی رکھتے ہیں مگر مذہبی سورما یہاں بھی نمبر ون ہیں۔ یہ میری ایک پرانی تحریر ہے۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم کی طرح میں نے بھی سب کچھ ماضی میں کہیں لکھ دیا تھا"۔

"یہ نوے کی دہائی کے وسط کا ذکر ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، انسپکٹر نواز خان کی کہانیاں"سیارہ ڈائجسٹ" اور "حکایت ڈائجسٹ" میں پبلش ہوا کرتی تھیں۔ مجھے انسپکٹر نواز خان کا کردار بہت پسند تھا۔ جرم و سزا کے واقعات پر مشتمل یہ کیسز "مبینہ" طور پر ایک سابق انسپکٹر نواز خان کی ڈائری پر لکھی یادداشتوں پر مبنی تھے۔ یہ زیادہ تر فکشنل کہانیاں جو اس وقت بالکل سچی لگی تھیں جنگ عظیم دوم اور اسکے آس پاس کے عرصے پر محیط تھیں۔

ان کہانیوں کی خاص بات نواز خان کے ہر کیس میں ایک ہوشربا اور بےباک "ناری" کا ہونا تھا۔ یہ ناریاں اکثر و بیشتر انسپکٹر پر فدا ہو کر، اسے بلیک میل یا رام کرنے واسطے اپنا آپ سونپنے پر تیار رہتی تھیں۔ اکثر کیسز میں ناجائز تعلقات کا معاملہ بھی درپیش رہتا تھا۔ یاد رہے کہ کہانیوں کا دور انیس سو تیس اور چالیس کے "اچھے بھلے شریف" عشرے ہیں جبکہ یہ پبلش ستر، اسی اور نوے کی دہائی میں ہوتی رہیں۔ میں چونکہ اس وقت بھی معصوم تھا تو مجھے شرمندگی ہوتی تھی کہ پرانے زمانے کے لوگ اتنے بے شرم کیوں تھے؟ حالانکہ جس کو دیکھو وہ پرانے وقتوں کی تعریفیں ہی کرتا رہتا تھا۔ گو تھی تو کہانیاں ہی مگر معاشرے کی عکاسی کچھ نہ کچھ کرتی ہی تھیں۔

یہ تو بعد میں احساس ہوا کہ زمانہ ہر زمانے کا بے شرم ہی ہوتا ہے اور رہے گا۔ ماضی ہمیشہ پاکیزہ اور بھلا ہی لگتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔ ان دونوں جملوں میں کوئی کھلا یا پوشیدہ تضاد نہیں۔ کیونکہ انسان کو اپنا ماضی، اپنی جوانی اپنا بچپن ہی سہانا لگتا ہے۔ ایدھی صاحب مرحوم انہی اچھے پرانے شریف وقتوں میں پروان چڑھنے والے ناجائز تعلقات کے نتیجے میں کالک بنے بے گناہ معصوموں کو اٹھا اٹھا کر پالتے تھے۔ ضیاء الحق کے دور سے قبل تو پاکستان میں کلبز اور شراب و کباب پر قانون قدغن بھی نہ تھی۔ ہیرا منڈیاں بھی آباد رہتی تھیں۔ اس زمانے کے اخبارات کا جرائم کا سیکشن کسی لائبریری میں جا کر دیکھ لیں، آج کے کرائم سیکشن سے ملتا جلتا ہی ملے گا۔

کہنا یہ ہے کہ یہ جو نام نہاد مشرقی کلچر یا تہذیب جس کے راکھ میں مل جانے کا رونا ہر ویلنٹائن ڈے کو شد و مد سے رویا جاتا ہے یہ ویلینٹائن ڈے سے کہیں پہلے کی کہانی ہے۔ بس ٹیکنالوجی ہر چیز کو Intensify کر دیتی ہے۔ جب اخلاقیات کے بجائے نمود و نمائش اور منافقانہ نیک بازی مقبول ہو جائے، تو معاشرے بھیڑ چال اور بندرانہ نقل کو ہی فخر جانتے ہیں۔ برصغیر کے معاشرے اپنی احساس کمتری کا علاج ہر اس مغربی رواج، فیشن اور عادات میں ڈھونڈتے ہیں جس سے انکے براؤن ماتھے ماڈرن ہونے کے تاج سے مزین ہوجائیں۔ چاہے اسکی قیمت انکی اپنی نسلیں ہی کیوں نہ ہوں۔

اصل ایشو یہ ببونی انداز حیات ہے۔ پیروی کرتے ہمارے دماغ ہیں۔ تفاخر سے rate race میں کھڑے ہوتے ہمارے زندہ لاشے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے تو کچھ بھی نہیں بس علامات ہیں۔ ہماری دبی حسرتوں کے ابلتے اظہار ہیں۔ ہم جو نیک، اسلامی بننے اور لگنے کے ڈراموں کے ساتھ ماڈرن، روشن خیال اور آپ ٹو ڈیٹ دکھنے کے مکروہ تضاد کو سینچ سینچ کر گلے لگا کر رکھتے ہیں یہ ہمارے وہ ہر دل عزیز دوغلے پن ہیں۔

انگلینڈ میں برسوں رہا۔ وہاں تو معاشرہ آزاد ہے مگر انہوں نے ویلینٹائن ڈے کو حقیقی محبت کا دن بنا رکھا ہے۔ اکثر میاں بیوی، لورر یا پارٹنر اس دن ایک دوسرے سے تجدید محبت کرتے ہوئے پھول اور کارڈ پیش کرتے ہیں۔ ہم نے نہ ریل ٹریک چھوڑے، نہ دریا صاف رہنے دیئے، نہ ٹیکنالوجی کا درست استعمال سیکھا اور نہ ہی کسی کلچر کو بخشا۔

کچھ لوگ ویلنٹائن ڈے کو پاکستان میں بے حیائی اور بے شرمی کا دن کہتے ہیں۔ بھلا اصلی محبت اس دیس میں کہیں ہو تو نظر آئے۔ رانجھے، ہیر، سسی پنوں یہ بس داستانیں ہی بچ گئی ہیں۔ جب باقی 364 دن بے شرمی اور بے حیائی کا راج ہو تو وہی ویلنٹائن ڈے یا نام نہاد شرم و حیا ڈے پر بھی دکھائی دیگی۔

Check Also

Taraqqi Kaise Hogi?

By Rao Manzar Hayat