Mazhab Aur Cricket
مذہب اور کرکٹ
دو مبینہ سیاہ فکر اور مستند سفید بالوں والے دانشوران نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجہ تبلیغی جماعت، داڑھی اور مذہب کو قرار دیا ہے۔ اس جڑواں سائنسی اور تکنیکی تجزیہ پر ابھی حیران و پریشان ہی تھا کہ ردعمل پر کچھ نسبتاً مذہبی فکرکے دانشوروں نے یہ لکھ کر مزید پریشان کر دیا کہ بتائیں انگلینڈ افغانستان سے کیوں ہارا؟ داڑھی اور مذہب تو نہیں پھر کیا وجہ ٹھہری؟ ساتھ ہی روایتی دائیں بازو کے دانشوروں کی سنت پوری کرتے ہوئے گھی میں مزید شکر انڈیلتے ہوئے انکشاف فرمایا کہ گوروں کا بہترین بلے باز جو روٹ اعلانیہ ہم جنس پرست ہے۔
دونوں ہی مکتب فکرکے خیالات عقل و فہم کے بجائے نفرت، ردعمل، مخصوص ذہنی سانچے میں مقید فکر کی واضح مثالیں ہیں۔
فی الحال لبرل اور مذہب پرست کی بحث سے پہلو تہی کرتے ہوئے کرکٹ تک محدود رہتے ہوئے کہوں گا کہ پاکستان ابھی چند دن قبل ہی ون ڈے کرکٹ میں نمبر ون ٹیم تھی، چاہے کمزور ٹیموں سے کھیل کر بنی یا موافق کنڈیشنز کا فائدہ ملا جو بھی وجہ ہو لیکن بہرحال نمبر ون ٹیم آپ تسلسل سے جیت کر ہی بن سکتے ہیں تو اسی تبلیغی جماعت، ڈاڑھی اور مذہب کے ساتھ جب نمبر ون بنتے ہیں تو آپ کیا اسکا کریڈٹ مذہب یا داڑھی کو دیتے ہیں؟ آپ ہرگز نہیں دیتے۔ آج کی تاریخ میں بھی پاکستان ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میں پہلے تین نمبروں والی ٹیم ہے۔ تو جب آپ کے ہی دلیل کو مد نظر رکھیں تو مذہب، داڑھی یا تبلیغی جماعت کا کرکٹ ٹیم کی اچھی کارکردگی میں کوئی حصہ نہیں تو ناقص پرفارمنس پر کیسے ان فیکٹرز کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
فکری افلاس، جہالت، تعصب اور نفرت آپ کے تجزیہ سے صاف نمایاں ہے۔
دوسری جانب دائیں بازو والوں کی روایت ہے کہ جھوٹ اور افواہ کو مذہبی صحیفہ کی طرح آگے پھیلاتے ہیں اور سب مل کر پھر اس جھوٹ پر واہ واہ سبحان اللہ کرتے ہیں۔ ذرا سا گوگل کر لیں تو معلوم ہو جائے گا جو روٹ ایک روایتی انگریز خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور ہرگز ہم جنس پرست نہیں بلکہ 2018 سے کیری نامی خاتون سے شادی شدہ ہے اور اسکے دو بچے بھی ہیں۔ لیکن جو مزہ جھوٹ کا ہے وہ سچ میں کہاں۔ ٹیسٹ کپتان بین اسٹوکس اور وائٹ بال کپتان جوز بٹلر بھی قدامت پرست خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مضبوط فیملی اسٹرکچر رکھتے ہیں۔ وہاں کے الٹرا لبرلز لوگوں کی طرح ہرگز نہیں ہیں۔
جہاں تک کرکٹ میں مذہب، داڑھی، تبلیغی جماعت یا الحاد کے اثر و نفود کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ کھیل صلاحیت بہتر کرنے کے ساتھ فیصلہ سازی کی اہلیت کو بہتر سے بہتر کرنے کا نام ہے تو اگر کوئی بھی چیز ان دونوں aspects کے لئے مفید ثابت ہو رہی ہے تو اسے جاری رہنا چاہئے۔ ہر کھلاڑی کے ساتھ اسکا مختلف نتیجہ نکلے گا۔ مثلاً سعید انور کے تبلیغی جماعت میں ہونے سے انکے کھیل پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور کھیل سے انکی توجہ ہٹ گئی۔ محمد یوسف پر مثبت اثرات ہوئے کہ انہوں نے اگلے ہی برس عالمی ریکارڈ بنا دیا۔ انضمام الحق کا بہترین دور بھی انکی مذہب سے گہری وابستگی کے بعد کا ہے۔
آسٹریلوی ٹیم میں ڈیوڈ وارنر نے پچھلے پانچ چھ برس سے شراب نوشی چھوڑ رکھی ہے اور گوشت بھی نہیں کھاتے تو اس دوران انکی بیٹنگ کا تسلسل بہتر ہوا مگر اس سے قبل جو طاقت اور جارحانہ پن انکے کھیل میں تھا اس میں نسبتاً کمی آئی۔ کوہلی بھی گوشت سے پرہیز کرتے ہیں اور دارو وارو بھی بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ انکی فٹنس رجیم کا حصہ ہے۔
میتھو ہیڈن ہمیشہ سے ہی سخت مذہبی انسان تھے۔ لیکن مسیحیت نے انکے کھیل پر مثبت اثر ہی ڈالا۔ ہاشم آملہ شروع سے ہی مذہبی تھے اور ہیں مگر انکے بھائی احمد آملہ بھی ویسے ہی داڑھی کے ساتھ عظیم کھلاڑی تو نہیں بن سکے بلکہ ایک انٹرنیشنل میچ تک نہ کھیل سکے۔ انگلش ٹیم میں معین علی اور عادل رشید دونوں کی داڑھیاں پاکستانی کھلاڑیوں سے لمبی ہیں۔ دونوں سخت مذہبی ہیں۔ لیکن شاید ہی کسی انگریز لبرل نے انکے مذہب یا حلیہ کی بنیاد پر انہیں مشق ستم بنایا ہو یہ امتیاز ہمارے ہی دیسی لبرلز سیکولرز کے نصیب میں ہے۔
غرض ڈھیروں مثالیں ہیں کہ مذہب کسی بھی کھلاڑی پر ایک طاقت ور مثبت فرق کا وسیلہ بن سکتا ہے اور اسی طرح ویگن Vegan ہونا، نان الکوحلک، Stoic یا دیگر کسی فلاسفی کے بھی مثبت یا منفی اثرات ہو سکتے ہیں اور اسکا زیادہ تر دارومدار کھلاڑی کے اپنے طرزِ عمل پر ہے۔ مجموعی طور پر مذہب یا کسی بھی فلسفے کی بنیاد پر زندگی گزارنے والوں کی کامیابیوں کا تناسب عام کسی خاص نظریہ پر زندگی بسر نہ کرنے والوں کی بہ نسبت سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔ کبھی ان دانشوروں نے یہ نہیں سوچا کہ دنیا کی بہترین ٹیم بھارت تقریباً ساری کی ساری ہی سخت مذہبی ہے۔ تو انکے اچھے کھیل پر مذہب کے معاملے میں منہ کیوں بند کر لیا جاتا ہے؟ منافقت اور جہالت انسان کی تباہی کے لئے شافی ہے۔
نوٹ: پاکستان کی بری کارکردگی بیکار پلاننگ، مری ہوئی سلیکشن، بزدلانہ اور گھسی پٹی کپتانی، اوپر سے لیکر نیچے تک mediocre فیصلہ سازوں کے لنڈا بازار کے سبب ہے اور خاطر جمع رکھیں پاکستانی ٹیم ان تمام لوازمات کے باوجود بھی سیمی فائنل تک جانے کی خوفناک اہلیت رکھتی ہے۔