Kaptan Se Jail Mein Mulaqat
کپتان سے جیل میں ملاقات
بہتیرا روکا گیا مگر بالآخر کپتان سے ملاقات کا اجلا وقت آن پہنچا۔ عزیزم ہلال الرشید سے کہا قید خانے تک چھوڑ آؤ۔ برخوردار نے سفید عربی النسل گھوڑے کو ایڑ دی اور اڈیالہ کے باہر جا اتارا۔
خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
اڈیالہ جیل میں قدم رکھا تو بے طرح نیک طینت شعیب سڈل یاد آئے۔ 95 میں آپریشن کے ہنگام جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ شہر کو امن لوٹایا تھا۔ ہاں قوی ہیکل وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کی مدد کے طفیل جو بوڑھے شیر کی طرح دہشت گردوں پر دھاڑے۔ الحذر الحذر!
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے بھی ہمدردی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
برادرم منہیل وڑائچ اور معروف کلاسرا بھی ہمرکاب! حوالات میں قدم رکھا تو پولیس اہلکاروں کو دیکھ کر برق سی کوندی۔ با ایں ہمہ، مرد مومن ضیاء الحق اپنی خاکی وردی میں یاد آئے۔ ایک سپید اجلے دن مجھے جی ایچ کیو کا بلاوہ بھیجا۔ خاکی سدا کا بدتمیز صاف انکار کر دیا۔ سپہ سالار خود براق سے سفید گھوڑے پر فقیر کی کٹیا آن پہنچا۔ سلام عرض کیا۔ سوویت یونین کی بابت چند صلاح مشورے کے جملے اور یہ جا وہ جا۔ آسمان رشک کرے۔
کپتان کے سیل پہنچے۔ دفعتاً منہیل وڑائچ دھڑام سے ٹھوکر کھا کر گر پڑے۔ نرم دل معروف کلاسرا کے اوسان خطا۔ بولے "کیا یہ دن بھی دیکھنا تھا اتنا سینیئر صحافی اور ایم ایم اے روڈ پر گرے ٹرکوں کی طرح حادثے کا شکار، میرا دل بھر آیا ہے"۔ کلاسرا کی آنکھوں سے آنسو رواں۔ کیسا سجیل اور بانکا لکھاری مگر ایسا رقیق القلب۔ بیوروکریسی کے زکوٹا جن مگر کٹھور اور بے حس۔
ایسی بوالعجمی بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔ الامان الحفیظ۔
گاہے بتایا کہ سپہ سالار صابر کیانی میں یہ صفت دیکھی۔ مارون گولڈ کے کش لیتے لیتے چھلک پڑتے۔ اے کاش لیون پینیٹا سے چند سکے ملک کے لئے اور لے لیتا۔ ایسا جری سپہ سالار اور صحافیوں کی ان پر دشنام طرازی پر جی سلگ اٹھتا ہے۔
من چاہا فوراً اڑ کر عارف عصر کے ملجگے اندھیرے والے کمرے میں جا پہنچوں اور پوچھوں کہ آپ کب تک لوگوں کے غموں کی گٹھڑیاں اٹھائے پھریں گے۔ ان چند ایم این اے اور ایم پی اے کے مسترد شدہ ٹکٹوں کے دکھ سمیت۔ اکھڑ کپتان نے عارف عصر وعدہ پورا کرکے نہ دیا۔ مجاہد کوہسار، گلبدین حکمت یار ایسا وعدہ وفا اور ایثار کیش نہ دیکھا۔ ٹھٹھرتی سردی میں خون آلود کابل کے بیچوں بیچ آلتی پالتی مار کر سکہ اچھال کر بچوں سے بابا اور مسجد کھیلتا رہتا۔ استفسار کیا تو ہنکارا بھرا "وعدہ نبھانا تھا"۔
عمران خان اپنے تنگ سے کمرے میں ہشاش بشاش چت لیٹا ملا۔ دیکھا تو اٹھ کر بولا ہارون کیسے آنا ہوا؟ کسی نے تنگ تو نہیں کیا؟ جواب سے پیشتر ہی وڑائچ اور کلاسرا کو سر کی جنبش دیکر سلام کیا۔ وہی کسرتی جسم اور لانبا چہرہ۔ کہا۔۔ ویسے ہی جوان ہو۔۔ تو گردن پیچھے کرکے ہنسنے لگا۔ اسی اثناء افطار کا وقت آن پہنچا۔ خان نے اپنی جیب سے کھجور نکال کر ہاتھ آگے کئے۔۔ دعا مانگی اور سامنے پلیٹ میں موجود سب کی کھجوریں منہ میں ڈال کر نماز کے لئے چل دیا۔ حوالات بھی کپتان میں مہمان نوازی کی صفت نہ لا سکا۔ سیاسی حرکیات کا تو کیا کہنا۔ ابتدا سے نابلد ہے!
نماز کے بعد دستر خوان سجا تو دیسی مرغی ندارد! یا رب العالمین کپتان کو کھرا رکھ۔۔ اربوں کی دولت گولڈ اسمتھ فیملی نے دینا چاہی۔ مگر سادہ اطوار خان ملک نہ چھوڑنے پر بضد۔ پوچھا "اتنا اصرار کیوں؟ جواب دیا "لندن میں دیسی مرغ اور پشاوری چپل نہیں ملتی"۔ ایسے انسان کو مقتدرہ شکست نہیں دی سکتی۔
قرائن تھے کہ منہیل وڑائچ اور معروف کلاسرا کی آمد خان کو نا گوار گزرے گی مگر خان نے محسوس نہ ہونے دیا۔ افطاری کے بعد ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے واک کرنے لگے تو سنتری بولا "سر بشریٰ بی بی کا فون ہے۔ خان ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔ کال پر سر ہلا ہلا کر بات کی جیسے کبھی باجوہ سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ کف افسوس کے ہر شیر پر ایک سوا شیر ہے۔ پوچھا شب و روز کیسے بیت رہے ہیں؟ خان اپنی ابدی سادگی سے بولا بس شیرو کے پوتے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ سیاست پر بات چلی تو بولا "دیکھو ہارون یہ قوم جان بیٹھی ہے کہ مجھے شکست نہیں دی جا سکتی۔ میں مر جاؤں گا ملک نہیں چھوڑوں گا"۔ منہیل وڑائچ نے لقمہ دیا "جب آپ مر جائیں گے تو کیسے ملک سے باہر جائیں گے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟" خان نے سر ہلایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر سر ہلا دیا۔ برق سی کوندی کب تک یہ قوم بیچ چوراہے گو مگو کھڑی رہے گی؟ ژولیدہ فکری ہے حضور ژولیدہ فکری!
بہتیرا روکا گیا مگر بالآخر کپتان سے ملاقات کا اجلا وقت آن پہنچا۔ عزیزم ہلال الرشید سے کہا قید خانے تک چھوڑ آؤ۔ برخوردار نے سفید عربی النسل گھوڑے کو ایڑ دی اور اڈیالہ کے باہر جا اتارا۔
خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
نوٹ: یہ ایک مکمل فرضی داستان پر مبنی تحریر ہے۔ کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی۔