Haroon Ur Rasheed Ke Column Ki Parody
ہارون الرشید کے کالم کی پیروڈی
گاہے یہ خاکی پکار اٹھتا ہے کہ دل پتھر کے ہوچکے ہیں۔ ایسی بوالعجمی کہ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے الحذر الحذر۔۔
ژولیدہ فکری ہے حضور ژولیدہ فکری!
معصوم طینت ممانیکا نے بچوں کی بابت بیان کرتے آنسوؤں بھرا چہرہ اٹھایا تو دل بھر آیا۔ اس چمکیلے دن کی طرح جب مرد مومن کے طیارے کے ملبے سے معجزانہ طور پر بچ جانی والی عینک کو تھاما تھا۔ مگر کپتان پر بے راہ روی کی دشنام طرازی؟ دھیرج حضور دھیرج!
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی
کپتان وہ ہے کہ، اک نو مسلم برطانوی خاتون نے خان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنا چاہا تو کپتان شرما گیا۔ بہتیرا اصرار کیا گیا مگر جواب ندارد۔ تھک ہار کر اس نے لندن کے کسی مذہبی عالم کو جا ڈھونڈا۔
بارہا دیکھا کہ خواتین تصاویر اور دستخط کی چاہ میں کپتان کے پاس چلی آتیں تو کپتان سرخ چہرے کے ساتھ اپنی میانوالی کی چپل میں اپنے پاؤں کے ناخنوں سے کھیلنے لگ جاتا۔ بنی گالا میں کسرت کے دوران چند خواتین اسے محو ہو کر دیکھنے لگیں تو کپتان کے لانبے چہرے پر الہڑ دوشیزہ ایسی شرماہٹ دوڑ گئی۔
دوسری بیگم تلخ بہت، طلاق کے بعد ازاں الزامات کی بوچھاڑ کی، کپتان خاموش رہا، پروقار خاموشی۔ تسلیم کہ جبلت کے سرکش گھوڑے پر جوانی آزاد گزری مگر خان نے وہ زندگی اپنی یادداشت سے اکھاڑ پھینکی۔ ہاں مگر سیاسی حرکیات سے نا آشنا ہے، سادہ دل ہے۔ بچوں کی سی معصومیت سے خامر کیانیوں، عبدالملیم خانوں، صف اللہ نیازیوں، مہانگیر ترینوں، ثمر باجووں اور قیس حمیدوں پر اعتبار کر بیٹھا۔
اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
ممانیکا تو کمپنی کے ہاتھوں مجبور، مگر ایثار کیش میزبان پازیب خائنزادہ کو کیا ہوا؟ دل بے تاب ہوا تو عارف عصر کے ملجگے اندھیرے والی کٹیا کی راہ لی۔ رستے میں عزیزم سے کہا کہ گولڈ لیف کی چند ڈبیاں اٹھا لو مگر عزیزم آج کی نسل، اپنی ترنگ میں بولا "آٹھ کروڑ میں ہزاروں گولڈ لیف آ جاتے ہیں" دل ناشاد ہوا۔ صوفی پر کیچڑ؟ افسوس انسان خسارے میں ہے تا آنکہ وہ اپنی قبر نہ دیکھ لیوے۔
عارف عصر تنقید و کیچڑ سے بے نیاز تسبیح پر جھکے، دانے رولتے ملے۔ سوال کیا تو بولے "پازیب کا "پ" کمپنی کی "ی" کے ساتھ پیچیدہ تعامل کر رہا ہے۔ دونوں کو اینگزائٹی ہے۔ دماغ میں برق سے کوندی۔ علم الاسماء کا معجزہ! اجلے انسان نے مشکل چٹکیوں میں سلجھا دی اور ہم تجزیہ نگار اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔
آسائش کی تمنا اور دلاوری؟ ذہن کی لوح پر محمد علی جوہر کی تصویر جگمگا اٹھی ہے۔
عافیت کوش میری فطرت پاکیزہ نہ تھی
میں نے شمشیر فروشوں کو سپاہی نہ کہا
محمد صلاح الدین یاد آئے۔ نوے کے وسط میں الطافی بربریت کا شکار ہوئے مگر کتنے ہی برس کراچی کے مقتل میں سر اٹھائے کھڑے رہے۔
ہم؟ ہم صحافی تو رفتگان خاک ہیں۔ خاکی وردی کے اسیر، سرمایہ کے غلام اور سیاست دانوں کے ہاتھوں کی میل۔
شام ہی سے بجھا بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
بے اختیار سپاہ سالار صابر کیانی یاد آئے۔ ایک گزرے اجلے اور سپید دن، مرکزی فوجی مستقر میں ملاقات کا بلاوہ بھیجا۔ وہی جن پر چڑیا والی سرکار اور مرحومہ چڑچڑی بڑھیا وکیل بہت چراغ پا رہتے تھے۔ سوچا سپہ سالار آسٹریلیا میں جزیرہ خریدنے کے الزام پر آرزردہ ہونگے مگر اپنے پسندیدہ کالم نگار عزیزم ہلال الرشید کو دیکھا تو ہشاش بشاش ہوگئے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں سوچتی کھوجتی آنکھوں کے ساتھ چند ساعت رک کر بولے "پاشا کہتا ہے تم صحافی لوگ ایک شراب کی بوتل اور ایک عورت کی مار ہو" آدمی ششدرہ رہ گیا۔ دریں حالیکہ مگر یہ سچ تھا۔ جری حکمت یار کی طرح کھرا سچ جو سرد جنگ کے ہنگام، امریکی صدر رونالڈ ریگن کے سامنے چلا اٹھا تھا "جنابِ صدر، ہم افغان جان ہتھیلی پر رکھتے ہیں اور پھر معصومیت سے وہیں وائٹ ہاؤس میں، اپنے ناڑے کی گرہ کھولنے لگ گیا"۔ باقی تاریخ ہے کہ کیسے ان کہسار دل جنگجوؤں کے سامنے امریکی کھیت رہے۔
اب کپتان کے سامنے کمپنی اپنا سوت خود ہی ادھیڑ رہی ہے۔ کوئی ہے جو کسی عربی النسل گھوڑے پر سوار ہو کر فوجی مستقر میں عظیم سپاہ کے جوانوں کو بیدار کرے کہ دجال کی فوجیں سر پر ہیں، ارض مقدس لہو لہو ہے۔ اور تم عدت میں الجھے ہو؟ جلاد صفت ہلاکو خاں کے زمانے میں بغداد کی سی حالت ہے۔
گاہے یہ خاکی پکار اٹھتا ہے کہ دل پتھر کے ہوچکے ہیں۔ ایسی بوالعجمی کہ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے الحذر الحذر۔
ژولیدہ فکری ہے حضور ژولیدہ فکری!
پس نوشت: پیروڈی کا مقصد عموماً مصنف یا فنکار کے فن کی پذیرائی ہوتا ہے نہ کہ تضحیک۔ میری پیروڈی کو بھی اسی تناظر میں لیا جائے۔ مبالغہ، طنز و مزاح، تنقید اور تکرار اسکا لازمی جزو ہوتا ہے۔