GDP Kahani
جی ڈی پی کہانی
سنہ 2007 تک، پاکستان اور بھارت کا جی ڈی پی(Per capita) تقریباً برابر تھا۔ پاکستان تقریباً 1400 اور بھارت تقریبا 1500 ڈالر فی فرد۔ آج یعنی 2022 کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان 2700 پر پہنچ چکا ہے اور پاکستان گھسیٹتے گھسیٹے 1500 پر لڑھک رہا ہے۔
1993 میں چین کا جی ڈی پی پر کیپٹا ساڑھے گیارہ سو ڈالر تھا۔ یعنی چین 1993-94 میں 2005-2006 کے پاکستان کے ہم پلہ تھا۔ آج چین 13000 پر پہنچ چکا ہے۔
بنگلہ دیش کا جی ڈی پی 2007 میں ساڑھے پانچ سو ڈالر کے لگ بھگ تھا یعنی اس وقت کے پاکستان کے نصف سے بھی کم ہے اور آج بنگلہ دیش 2600 پر دستک دے رہا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو مغربی پاکستان کا جی ڈی پی پر کیپٹا، 1971 میں، 175 ڈالر جبکہ مشرقی پاکستان کا 128 ڈالر تھا۔
یہ تمام اعدادوشمار با آسانی آن لائن دستیاب ہیں۔ یہ کوئی انوکھی خبریں نہیں۔ یہ ہماری حالیہ تاریخ ہے۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔
اس میں چند اہم فیگرز حیران کن اور ہمارے تمام بیانیوں کے برعکس ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق اور مشرف دور میں امریکی ڈالرز کی وجہ سے بہت ترقی ہوئی۔ یہ بات بالکل غلط نہیں مگر یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ مشرف دور میں سب سے زیادہ 53 فیصد جی ڈی پی میں اضافہ سنہ 2000 میں ہوا، نائن الیون سے کہیں قبل۔ دوسری جانب موجودہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا جی ڈی پی کا اضافہ ضیاء الحق کے دور میں نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا۔
1974 میں پاکستانی جی ڈی پی گروتھ پر کیپٹا میں 35 فیصد اضافہ ہوا۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں صنعتوں کے قومیانے کی وجہ سے کاروبار تباہ ہوئے اور پاکستان پیچھے گیا۔ ممکن ہے یہ سب بھی ہوا ہو مگر فی فرد آمدن میں اضافہ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے اور یہ بھٹو اور ضیاء الحق دور کی یہی کہانی ہے کہ نسبتاً مناسب رفتار سے ترقی ہوتی رہی۔
پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں ترقی کو بریک 1988 سے لگنا شروع ہوئے اور 2008 کے بعد زیادہ شدت سے لگے ہیں۔ وجوہات بیان کی جائیں تو جمہوریت اور ریاست کے تقدس دونوں کے پیٹ میں مروڑا اٹھ جاتی ہے۔
مزید دیکھیں کہ ہیومن ڈیوپلمنٹ انڈکس میں پاکستان 1990 میں 121 پر تھا، آج پاکستان 163 پر ہے۔ بھارت اسی دوران 116 سے 134 پر جا چکا ہے۔ یعنی اس معاملے میں دونوں ممالک نیچے کی طرف گئے ہیں۔ دعوے لیکن دیکھ لیں۔
بہرحال اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستان بطور ریاست، بطور معاشرہ آج چاہے تو بیس برس میں اس ملک کی شکل، اخلاقیات، سماجیات بلکہ عقل بھی بدل سکتی ہے۔ ہمارے پاس اتنی ورک فورس ہے کہ اگر ہم اسے کچھ فیصد بھی سکلڈ بنا دیں تو اگلے پچاس برس تو کام کرنے والے فالتو ہونگے۔ دنیا کو ایسی لگژری میسر نہیں۔ چین اور جاپان اگلے پچاس برس میں منفی گروتھ میں ہونگے۔ چین کی آبادی 2100 تک موجودہ آبادی سے نصف یعنی ستر کروڑ تک ہونے کے خدشات ہیں۔
2100 تک بھارت بھی آبادی کو بریک لگا چکا ہوگا۔ تب پاکستان، امریکہ، صومالیہ، ویتنام، آسٹریلیا اور نائجیریا ہی میدان میں ہونگے۔ پاکستان کی آبادی اگلی صدی تک 51 کروڑ ہونے کی پروجیکشن ہے۔ بھارت ایک ارب 70 کروڑ تک پہنچ کر 2100 تک پھر ایک ارب 50 کروڑ تک چلا جائے گا۔ امریکہ کی آبادی 42 کروڑ ہوگی۔ سب سے زیادہ اضافہ افریقہ میں ہوگا۔ کانگو، نائجیریا اور صومالیہ چالیس پچاس کروڑ کے آس پاس پہنچے ہونگے۔ افغانستان تیرہ کروڑ تک پہنچ سکتا ہے۔
اب یہ ہم پر ہیں کہ ہم اپنے وسائل کو مسائل ہی بناتے رہیں گے یا امکانات کی اک نئی دنیا آباد کرینگے۔ غور کریں کہ چین کا دارومدار دوسرے ملک پر بڑھ جائے گا جو آج کے چینی معاشی ماڈل سے بالکل برعکس ہے جبکہ امریکہ اپنی موجودہ شکل کو برقرار رکھتا نظر آ رہا ہے۔ بہر حال چین اور جاپان جیسی اقوام کی فراست کو گورے ہمیشہ انڈر اسٹیمیٹ کرتے رہے ہیں۔
یہ تو ہیں سب امیدیں، توقعات اور خدشات۔ لیکن کون ہے جو ان بنیادوں پر اگلے بیس، تیس پچاس برسوں کو سوچ کر فیصلے کر رہا ہے؟
ہے کوئی؟
پس نوشت: مجھے جی ڈی پی nominal، per capita یا دیگر اعداد شمار پر ایسا پختہ یقین نہیں کہ یہ انسانی اور معاشرتی ترقی کو مکمل طور پر بیان کرتے ہیں مگر جو میسر ہے اسی میں سے سچ کھنگالنا ہوتا ہے۔