Aeeni Tarmeem
آئینی ترمیم
پارلیمانی کمیٹی کے بارہ اراکین میں سے سات تو مسلم لیگ اور پی پی پی کے ہوگئے۔ یعنی صرف یہی نہیں بلکہ با آسانی کوئی بھی حکومت اپنی مرضی کا چیف جسٹس لا سکتی ہے۔ باقی اتحادیوں کو بھی ایک ایک سیٹ مل جائے گی تو دو تہائی کا معاملہ بھی سہولت سے طے ہوجائے گا۔
یہ ہے وہ بنیادی ترمیم جس کے لئے سب کے اوسان خطا تھے۔ باقی کچھ ترامیم حکومت کے والدین نے ڈراوے واسطے رکھی تھیں تاکہ ان پر بارگین کرکے اصلی مدعے پر سب کو اکٹھا کیا جائے۔
اب آپ بتائیں اور وہ تمام دانشور جو جمہوریت کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اپنے آپ سے سوال کریں کہ اس ترمیم سے عوام کے مسائل حل ہونے میں کیا بہتری آئے گی اور سپریم کورٹ کے فیصلوں، حصول انصاف کے لئے عوام کو کیا سہولت ملے گی؟ سب کچھ بس کسی کا مکو ٹھپنے اور کسی کے محاسن مصنوعی بلند کرنے کی رام کتھا ہے۔
ابھی آئینی ڈویژن والی رام کہانی تو آگے چل کر معلوم پڑے گی۔
مولانا فضل الرحمن کی کاوشوں کو میں ہرگز negate نہیں کرتا، پس پردہ وجوہات جو بھی ہیں مگر انہوں نے ابتدائی مسودے کے خلاف سخت سٹانس لیا۔ اگر وہ اسٹینڈ نہ لیتے تو ممکنہ طور پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے ملٹری ٹرائل اور اظہار رائے پر سنگین اٹیک کے لئے راستہ ہموار کرنے کا پلان موجود تھا۔ جو فی الحال صرف پسندیدہ چیف جسٹس کے لانے تک رہ گیا ہے۔
لیکن اصولاً اگر آپ بالکل سیاسی اینگل ہٹا کر بھی دیکھیں تو ایسی ترامیم سے پاکستانی معاشرے میں قطعاً بہتری نہیں آنی جو کہ آئین ساز اسمبلی کا سب سے بنیادی اور اہم ترین کردار ہے۔
اور ہاں جس طرح سے بکریوں کے ریوڑ کو ہانک کر سر شام اکٹھا کیا جاتا ہے اسی طرح نکھٹو اور نخریلے ممبران کو شو شو کرکے ووٹنگ کے لئے اکٹھا ہوتے دیکھنا جمہوریت کی شان میں پلس 18 کی ریٹنگ والے برمحل الفاظ و تراکیب کی آمد کا سبب بھی بنا۔
اس Vanity stats پر مبنی اچھل کود اور جمع تفریق کو جمہوریت کہنے والے لفاظی کے چابک مار پیادوں کے لئے میری ڈکشنری میں انتہائی واہیات اور ننگی گالیاں ہی ہیں۔