Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Samiullah Baloch
  4. Meri Talaq Yafta Mehbooba Shahab Nama (2)

Meri Talaq Yafta Mehbooba Shahab Nama (2)

میری طلاق یافتہ محبوبہ شہاب نامہ( 2)

اب خدا جانے یہ کیسی خودکار (آٹومیٹک) چھت تھی جو پتھروں کو آتے دیکھ کر از خود کھل جاتی تھی اور مصنف پر پتھراؤ کے بعد ایک آٹومیٹک سسٹم کے تحت بند ہو جاتی تھی کہ کوئی ثبوت بھی باقی نہ رہے۔ ہمیں تو یہ چھت بھی شریکِ جرم لگتی ہے۔ ایک دن تو ظالم نے حد ہی کر دی، کہنے لگی

"ایک رات میرے بابا کے کمرے میں اینٹوں اور پتھروں کی جگہ مردار ہڈیوں اور انسانی کھوپڑیوں کی بارش ہونے لگی۔ کھوپڑیوں کا یہ انبار اتنا کریہہ المنظر تھا کہ صبح کا انتظار کیے بغیر میرے بابا نے ہڈیوں کو اکٹھا کر کے ایک چادر میں باندھا اور انھیں تالاب میں پھینکنے کے لیے باہر لان میں نکل آئے۔ جب تالاب کے قریب پہنچے تو تالاب سے ایسی آوازیں برآمد ہوئیں جیسے کوئی غوطہ خور پانی سے باہر ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی تالاب کے کنارے سبز کائی میں لپٹا ہوا ایک کالا سایہ نمودار ہوا اور خوں خوں کرتا ہوا گوریلے کی طرح میرے بابا کی طرف بڑھنے لگا۔

میرے بابا نے ہڈیوں کا گٹھا وہیں پھینکا اور پیٹھ پھیر کر اپنے کمرے کی طرف بھاگے" یہ تو اچھا ہوا کہ اس کے بابا نے بھاگ کر انسان ہونے کا تھوڑا بہت ثبوت دے ہی دیا، ورنہ میں سمجھ رہا تھا کہ یہاں بھی بابا (مصنف) سائے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس پر پھونک مار کر آگے بڑھ جائیں گے۔ خیر میری محبوبہ نے، اپنے بابا کے عجیب الخلقت ہونے کی اور بھی کئی کہانیاں سنائیں اور یہ سلسلہ بملا کماری کی بوسیدہ لاش کو اس کوٹھی کی فرش سے نکال کر چتا میں رکھ کر جلا دینے تک جاری رہا۔

"بقول محبوبہ" (بملا کماری، کالج کی ایک طالبہ تھی، جسے ایک آئی سی ایس افسر نے شادی کا جھانسہ دے کر اس کوٹھی میں لا کر اس کا ریپ کر کے اس کا گلا دبا کر مار ڈالا تھا اور اس کی لاش کو اس کوٹھی کے مشرقی کونے میں دفن کیا تھا۔ یہ سارا کچھ بملا کماری کی بے چین روح میری محبوبہ کے بابا سے کر رہی تھی۔) اب ہم حیران تھے کہ ایک بیورو کریٹ اپنی اتنی حسین، من موہنی اور بھولی بھالی بچی کو ایسی طلسمِ ہوش ربا داستان جیسی کہانی کیسے سنا سکتا ہے جو آگے چل کر نہ صرف بیورو کریٹ کے دامن کو مزید داغ دار کرے گی۔

(جو پہلے پانچ جمہوریت دشمنوں کا منظورِ نظر ہونے کیوجہ سے اور رائٹر گلڈ قائم کر کے ادیبوں کو ایوب خان کی آمریت کی زنجیر پہنانے کے الزام میں، شدید گرد میں لپٹا ہوا ہے) بلکہ اس کی نازک اندام بیٹی (جسے اس نے بڑے لاڈ و پیار سے پالا ہے، اس کے ماتھے کی بندیا، اس کی آنکھوں میں کاجل اور اس کے بالوں میں کنگھی، بھی اپنے ہاتھوں سے کی ہے تاکہ اس کے حسن (اسلوب اور طرز بیان) میں کوئی کمی نہ آئے، کے کردار پر بھی دھبہ لگ جائے گا اور وہ جس گھر (قاری کے ہاتھوں) میں بھی جائے گی وہاں اپنے باپ کی جھوٹی وکالت کے سبب دھتکاری ہی جائے گی۔

خیر تھوڑی دیر کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ مصنف کے ساتھ، بملا کماری کی روح نے یہ چھپن چھپائی کا کھیل کھیلا ہے تو بھلا یہ کیسے مان لیں کہ وہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی اس مافوق الفطرت کوٹھی کو چھ مہینے تک چھوڑنے پر آمادہ نہیں اور رات ہوتے ہی یہ تماشا دیکھنے کوٹھی کا رخ کر لیتے ہیں۔ یہ کوئی فلمی ہیرو تو کر سکتا ہے لیکن حقیقت میں۔ (توبہ)

لوگ کہتے ہیں کہ مصنف کا اپنی اس بیٹی (شہاب نامہ) کو اتنا بناؤ سنگھار کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس کی معصوم صورت سے دھوکہ کھا کر لوگ اس کے بیان کردہ واقعات پر یقین کر لیں اور مصنف پر جو آمریت دوستی کا الزام لگا ہے اس کا سارا ملبہ مصنف کے کندھوں سے اتر کر، غلام محمد خان، اسکندر مرزا، جنرل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا پر آ جائے، لیکن افسوس کہ مصنف نے اپنی اس بیٹی کو کچھ زیادہ ہی مکاری سکھائی تھی۔ جو مصنف کے دامن پر لگے سیاہ نشانات تو نہ دھو سکی۔ البتہ اس پری پیکر کی سیرت کو داغ دار کر گئی۔

خیر آخر میں کہنا یہ تھا کہ ہم نے تو اس ماہ رخ کی بدزبانی سے تنگ آ کر اسے طلاق دے دی۔ گو کہ "بملا کماری" اور "میرے باپ کا الزام کسی اور کے سر" والی کہانیاں سننے کے بعد بھی ہم اسے منظورِ نظر نہ سہی لیکن دل کے کسی پہلو میں رہنے کے قابل سمجھتے تھے لیکن جب اس نے ایک دن چھوٹے منہ سے کچھ زیادہ ہی بڑی بات کہہ کر اپنے باپ کو ولِیُّ اللہ کے درجے پر فائز کرنے کی کوشش کی تو ہم سے رہا نہ گیا اور ہم نے دل پر پتھر رکھ کر طلاق نامے پر دستخط کر کے اسے واپس لائبریرین کے حوالے کر دیا۔ آج بھی جب لائبریری میں کوئی کتاب ڈھونڈنے جاتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی نگاہ اس حسینہ کی جانب اٹھ جاتی ہے تو آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہوتا ہے اور زبان فیض کا یہ شعر وِرد کرنے لگ جاتی ہے۔

لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجیے

اب بھی دل کش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے

کاش کہ اپنی اس محبوبہ کی صورت جیسی سیرت ہوتی تو یہ بندھن کبھی نہ ٹوٹتا۔

آخر میں نئے عاشقوں کے لیے بس ایک مشورہ کہ ہم نے تو خیر اس کی بدزبانی کی وجہ سے اسے طلاق دے دی ہے لیکن اس کا حسن (طرز بیان) اب بھی اتنا دل کش ہے کہ کوئی بھی عاشق اس پر مر مٹنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ حسن پرستوں کے لیے اب بھی یہ ہستی کا سامان ہو سکتی ہے۔ ہماری طرح نکاح نہ سہی ایک بار دوستی کر کے ضرور آزما لینا چاہیے۔

(ختم شد)

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer