Meri Talaq Yafta Mehbooba Shahab Nama (1)
میری طلاق یافتہ محبوبہ شہاب نامہ (1)
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔
(حفیظ جالندھری)
مرحوم قدرت اللہ شہاب بڑی خوبیوں کے مالک تھے "یاخدا" اور"ماں جی" جیسے شاہکار انھیں کے قلم کی پیداوار ہیں۔ ایک صاحبِ اُسلوب ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ طویل عرصے تک انتظامیہ کے کئی بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل وہ آئی سی ایس پاس کر کے سول سروس (دنیائے پیچ و تاب) میں شامل ہو گئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک "کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے" والی سچویشن میں غلطاں و پیچاں رہے۔ "شہاب نامہ" اس کے بچپن سے لے کر پیری تک! اس کے شبانہ روز کے واقعات کا مجموعہ (آپ بیتی) ہے، جس میں اس نے واقعات کی ایسی ملمع کاری کی ہے کہ کتاب میں ایک داستانوی اور افسانوی سماں بندھ گیا ہے۔
زمانۂِ طالب علمی میں اس کتاب کا بڑا نام سنا تھا بڑی خواہش ہوتی تھی کہ خرید کر پڑھ لیں، لیکن کتاب کے پیچھے درج، کتاب کی قیمت (1400 روپے) دیکھ کر خواہش کا دم نکل جاتا تھا۔ خیر وقت گزرتا گیا ہم بھی اس کتاب کی محبت کو ایک راہ گزر محبوبہ کے چند لمحوں کی دل لگی سمجھ کر بھلا بیٹھے۔ ایک ماہ پہلے یونیورسٹی آف گوادر کے کتب خانے (لائبریری) میں ایک کتاب ڈھونڈتے ڈھونڈتے اچانک "شہاب نامہ" پر نظر پڑی، تو ایسا لگا کہ وہ راہ چلتی محبوبہ، اچانک ہمارے دروازے پر کھڑی ہو کر ہمیں آواز دے رہی ہے۔
پہلے پہل تو ہمیں اپنی آنکھوں کا دھوکہ لگا لیکن غور سے دیکھنے کے بعد یقین ہوگیا کہ یہ وہی دل رُبا ہے، جس سے چند سال پہلے ہماری دل لگی تھی اور اس محبوبہ کی ٹھاٹ باٹ نے ہماری دل لگی کو دل کی لگی بننے کا موقع نہ دیا تھا۔ خیر اب جب محبوبہ خود چل کر سامنے آ گئی تھی تو ہم کہاں منہ موڑنے والے تھے۔ ہم نے تُرنت محبوبہ کا ہاتھ تھام لیا اور لائبریرین سے نکاح پڑھوا کر اسے گھر لے گئے۔ جس طرح شادی کے ابتدائی دنوں میں ایک نئی نویلی دلہن کی ہر ادا دل ربا لگتی ہے، بالکل ویسے ہی شروع کے دنوں (ابتدائی صفحات) میں ہم اس کی سِحر کاری سے باہر نہ نکل سکے۔
اس کا حُسن (اُسلوب) اور اس کی چال ڈھال (طرزِ بیان) ہمیں ایسی دلکش لگی کہ ہم دنیا و مافیھا سے ناتہ توڑ کر، اس کی گود میں سر رکھ کر، اس کے حسنِ خداداد کے طواف میں مصروف ہو گئے۔ کبھی گود میں بٹھا کر انگلیوں سے اس کے مرصع گالوں (سطور) کو چھوتے۔ کبھی بانہوں میں بھر کر اس کی پیچ دار زلفوں (الفاظ و تراکیب) کی آرائش و زیبائش کی حمد و ثنا کرتے۔ ہم نے تو سوچا تھا کہ زندگی یوں ہی اس حسینہ کے زلفوں کی چھاؤں میں بسر ہوگی۔ مرتے دم تک اس ماہ جبین کو خود سے جدا نہ ہونے دیں گے۔
لیکن ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ اِس ماہ رُخ، ماہ جبین اور پیچ دار زلفوں والی حسینہ (شہاب نامہ) کی سیرت کے سیاہ باب کھلنے لگے۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے ویسے ہی اس کے نین نقش پر اس کی دروغ گو زبان غالب آتی گئی۔ اس نے مکاری اور غلط بیانی کا لبادہ پہن لیا اور اپنے باپ (مصنف) کی پارسائی، بےباکی اور طرح طرح سے اس کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دیا۔ شروع شروع میں تو ہم اس کی نادانی سمجھ کر نظر انداز کر گئے کہ ایسی چھوٹی موٹی خامیاں ہر محبوبہ (کتاب) میں ہو سکتی ہیں، آگے چل کر یہ صراط مستقیم پر آ ہی جائے گی لیکن افسوس کہ، ڈھاک کے وہی تین پات۔
ایک دن اپنے باپ کی دلیری کا ذکرتے ہوئے کہنے لگی "جب میرے والد صاحب، برہام پور گنجم کے ایس ڈی او اور ساورا ایجنسی کے سب ایجنٹ ٹو گورنر کے طور پر تعینات تھے، تو اس کی رہائش کٹک کی سول لائنز کی ایک کوٹھی میں تھی۔ یہ کوٹھی سالہا سال سے غیر آباد پڑی تھی اور اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس میں آسیب کا سایہ ہے جو اس مکان میں کسی کو رہنے نہیں دیتا۔ میرا باپ چوں کہ پڑھے لکھے تھے، آئی سی ایس آفیسر تھے اسی لیے اس نے ان تَوہُّمات پر کان نہیں دھرے اور اس کوٹھی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
ایک رات میرے بابا پلنگ پر لیٹے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے کہ اچانک سے بجلی کا سوئچ کھٹاک سے بجا اور بجلی بجھ گئی "ہم نے ایسی سنسنی خیز کہانیاں بہت سن رکھی تھیں ڈراؤنی فلمیں دیکھی تھیں، اس لیے ہمیں پتا تھا کہ یہ کہانی آگے چل کر کونسا روپ دھارے گی اس لیے طبیعت تھوڑا جھنجلانے لگی، لیکن ایک تو آئی سی ایس افسر کا سن کر سوچا، ہو نہ ہو یہ آفیسر اس خیالی دنیا کا نقشہ بدل کر کے ہی رہے گا۔ دوسری بات یہ کہ ظالم اس شان نزاکت سے مزے لے لے کر ہمیں کہانی سنا رہی تھی کہ ہم چاہ کر بھی اپنا دھیان ہٹا نہیں سکے۔ وہ بولتی رہی، ہم سنتے رہے۔
"ابھی میرے بابا سوئچ آن کرنے کے لیے اٹھے ہی تھے کہ سوئچ کھٹاک سے بجا اور بجلی آن ہوگئی۔ ساتھ ہی ڈائننگ روم والے دروازے پر تین بار دستک ہوئی میرے بابا نے جا کر دروازہ کھولا تو باہر کوئی بھی نہیں تھا بالکل خاموشی تھی۔ البتہ سفید دھوئیں کا ایک چھلا ضرور نظر آیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ڈائننگ روم کی فضا میں تحلیل ہوگیا۔ جب دھواں ختم ہوگیا تو میرے بابا ہاتھ منہ دھونے واش روم چلے گئے، جیسے ہی انہوں نے نلکا کھولا تو پانی کی جگہ گرم گرم خون نکلنے لگا جس سے پوری کوٹھی میں سڑی ہوئی مچھلی کی سڑاند پھیل گئی۔
"میں اس کے نازک ہونٹوں پر نظر جمائے، سوچ رہا تھا کہ ایک اے سی ایک سیکریٹری اور سفیر کے عہدوں پر رہنے والا آدمی کیسے اپنی پھول جیسی بچی کو ایسی فلمی کہانیاں سنا سکتا ہے کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ حقیقت میں ہوا ہے۔ خیر کہانی آگے بڑھتی رہی۔ ایک دو انگڑائیاں لینے (صفحات پلٹنے) کے بعد دل کش پیرائے میں بولی "اب یہ روز کا معمول بن گیا تھا۔ کبھی غسل خانے سے صابن دانی اپنے آپ چل کر بستر پر آ جاتی تو کبھی برآمدے میں شہ زور گھوڑوں کے سر پٹ دوڑنے کی آوازیں آتی۔ درمیان میں کئی راتوں تک لگاتار میرے بابا پر اینٹوں اور پتھروں کی بارش ہوتی رہی۔ روز میرے بابا پتھروں اور اینٹوں کی ڈھیر کو اٹھا کر باہر پھینک آتے لیکن رات کو پھر وہی تماشا لگ جاتا۔ "
(جاری ہے)