Hamara Quran Hamari Marzi
ہمارا قرآن ہماری مرضی
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
آپ کو یاد ہوگا (یاد کیسےنہیں ہوگا، قولی مسلمان جو ٹھرے) نومبر 2019 کو ناروے میں قرآنِ مجید کو سرِ عام نذر آتش کردیا گیا اور وہاں ایک الیاس نامی شخص کا ایمان جاگ گیا اور اس نے کسی انجام کی پروا کیے بغیر لپک کر اس ملعون پر حملہ کرکے قرآن کریم سے اپنی عقیدت کا ثبوت دے دیا۔
اسلامی دنیا میں ناروے کی اس متعصّبانہ اور غیر اخلاقی حرکت پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ہمیشہ کی طرح دوڑتے ہی خاموش ہوگئی، یعنی(دھمکی میں مرگیا جو نہ بابِ نبرد تھا) والی شکل اختیار کرگئی۔ پوری دنیا خصوصاً پاکستان میں الیاس کی ہمت اور جواں مردی کے گُن گائے جانے لگے۔ نومبر 2019 کو ڈان نیوز میں شایع ہونے والی ایک رپوٹ کے چند حوالے ملاحظہ ہوں۔
"Salute to brave #Ilyas for displaying courage to stop an absolutely deplorable action"(جنرل آصف غفور)
"ناروے کے شدت پسند گروہ کی طرف سے قرآن کریم کی بیحرمتی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، شدت پسند ہر معاشرے میں ناسور ہیں اور ان کا سد باب عالمی ذمہ داری ہے" (محترم فواد چودھری)
"یہ اسلامی دنیا کا وہ ہیرو ہے جو ناروےمیں چند اسلام دشمنوں کی طرف سے قرآن مجید کو جلانے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے جلانے والے پر کود پڑا۔ نوجوان کو پولیس نے حراست میں لے لیا جس پر صرف ترکی نے آواز بلند کی۔ باقی اسلامی دنیا ابھی تک خاموش ہے"۔ (انصار عباسی)
ان سے بھلا کون گلا کرے وہ تو خیر ہیں ہی کافر، بقول شیخ جی کے "جہنم کے ایندھن بننے والے" لیکن اسلام اور قرآن کو آج جہنم کے مالکوں سے زیادہ جنت کے رضوانوں سے خطرہ ہے۔ اسلام آج فریادی ہے کہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" آج نہیں بل کہ شروع دن سے ہی اسلام کو غیروں نے کم اور اپنوں نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یزید کی یزیدیت کے بعد اسلام ایک ایسے ریلے کی شکل اختیار کرگیا جو پہاڑوں سے صاف و شفاف نکلتا ہے لیکن راستے میں خس و خاشاک کی آمیزش سے سمندر تک پہنچتے پہنچتے میل کچیل سے اس کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے۔
اسلام ہم تک پہنچتے پہنچتے شاید وہ اسلام نہیں رہا جس کی پیروری محمدؐ اور اصحاب کرام کیا کرتے تھے۔ وہ اسلام شاید امام حسینؓ کی شہادت کے ساتھ ہی ہم سے چھوٹ گیا جس کا درس قرآن مجید نے ہمیں دیا تھا۔ آج اسلام کے ٹھیکداروں نے قرآن کو پس پشت ڈال کر اسے صرف، نکاح اور چہلم تک محدود کرکے اسلام کی ایک ایسی خود ساختہ اور ملمع کی ہوئی تصویر پیش کی ہے۔ جسے دیکھو بھی گناہ گار نہ دیکھو بھی سزاوار۔ اس تصویر کو دیکھ کر ہی وحشت ہوتی ہے۔ بقول ایک البیلا شاعر کے
میں پھیلا تھا محبت سے بنا ہو آج وحشت میں
محافظ ہوتے مخلص جو تو منصب سے نہ گرتا میں
یورپ میں ایک قرآن کے نذر آتش ہونے پر چیخنے چلانے والوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم خود روزانہ کتنی بار قرآنِ مجید کی بے حرمتی کرتے ہیں؟ روزانہ کتنی تعداد میں قرآن مجید کو شعلوں کی نذر کرتے ہیں؟ نہیں ناں؟ تو سنیں!
پشاور میں پولیس لائن والی مسجد میں دھماکے سے کتنی ماؤں کے کلیجے چھلنی ہوگئے کتنی بیویوں کے ہاتھوں کی چھوڑیاں ٹوٹ گئیں۔ کتنے بچوں کے سروں سے سائبان اٹھ گئے اسے چھوڑ دیں یہ کوئی انہونی نہیں یہ تو روز کی کہانی ہے۔ اس پے بھلا کیا رونا۔ لیکن اس مسجد میں کتنے قرآن مجید جل کر راکھ ہوگئے۔ کتنے صفحات سے آیتیں اتر گئیں؟ کیا ہم اسلام کے چورن بیچنے والوں نے اس پر احتجاج کیا۔
بقول کاشف رضا ایک بابری مسجد کے شہید ہونے پر واویلا مچانے والے ابن الوقت حضرات نے کیا اتنی مسجدوں کو بموں سے اڑانے والوں کے خلاف بھی کوئی مظاہرہ کیا؟ کوئی فتوی دیا؟ کوئی توڑ پھوڑ کی؟ نہیں۔ کیوں کہ ہمارا اسلام ہے ہم جس طرح چاہیں اسے استعمال کرسکتے ہیں اس کی تعلیمات کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ ہم صرف اسلام اور قرآن کا چورن بیچ سکتے ہیں ہندوؤں اور مشرکوں کو اللہ اکبر کہہ للکار سکتے ہیں۔ ہم قرآن کی توہین ہونے پر دوسروں کو گھر میں گھس کر مار تو سکتے ہیں لیکن اپنے گھر میں گھسنے والوں کو روک نہیں سکتے۔
قرآن کی تذلیل کا رونا رونے والے عوام بھی اسلام اور قرآن کی کچھ کم تذلیل نہیں کرتے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بس اپنے تعلیمی اداروں کو غور سے دیکھنا ہے۔ ہمارے تعلیمی مراکز میں نقل کا رواج ہے ہم عربی اور اسلامیات کے پرچوں میں درسی گائیڈ کے سینکڑوں ٹکڑے کرکے جوتوں میں رکھتے ہیں یا ازار بند تلے دباتے کیا یہ قرآن کی توہین نہیں یا اس میں لکھی ہوئی آیات کا تعلق قرآن سے نہیں؟
پرچہ ختم ہوتے ہی ہم درسی گائیڈ اور پھاڑے ہوئے صفحات ہال میں پھینک آتے ہیں جنھیں چپراسی یا خاک روب (سویپر) پتا نہیں کس کوڑے میں پھینک آتا ہے یا آگ لگادیتا ہے، کیا یہ قرآن کی توہین اور شانِ خداوندی میں گستاخی نہیں؟ یا ہماری نظر میں قرآن بس وہ ہے جو یکجا تیس پارے کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ قرآنی آیات چاہے کسی عام دیوار پر لکھی ہوں یا محراب پر، درسی گائیڈ میں ہوں یا تیس پارے کی صورت میں، وہ قرآن ہی ہیں بقولِ اقبالؒ
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
اور جس طرح تیس پاروں والی قرآن کی حفاظت کرنا ضروری ہے اسی طرح ہر لکھی ہوئی آیت سے محبت اور اس کا تحفظ لازمی ہے۔ خدار ہوش کے ناخن لیں۔ ہم تارکِ قرآن ہوکر زمانے میں ذلیل وخوار تو کب کے ہوگئے اگر ایسا ہی چلتا تو ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔