Depression Diary, Kya Haqeeqat Kya Fasana? (1)
ڈپریشن ڈائری، کیا حقیقت کیا فسانہ؟ (1)
"فحش گوئی، بکواسیات، بیہودہ باتیں سستی شہرت کی تڑپ کے سوا اس میں بھلا ہے ہی کیا؟ مصنف نے منٹوئے بلوچستان بننے کی بے کار سی کوشش کی ہے"۔
یہ تھے"ڈپریشن ڈائری" کے متعلق چند جملے جو سوشل میڈیا کی توسط سے، اس کتاب کے پہنچنے سے پہلے ہم تک پہنچ چکے تھے۔ اور ایسے بھی سینکڑوں مداح تھے جو اس کتاب کو اپنی بپتا اور اپنا ڈپریشن تصور کرکے تعریفی و توصیفی کلمات سے نواز چکے تھے، لیکن گوادر میں اس کتاب کی پہلی اشاعت تو پہنچی ہی نہیں کہ ہم کوئی رائے قائم کرلیتے بس انھیں چھوٹے موٹے تبصروں پر گزارا تھا۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کا چرچا ہوتے ہی خاتمے کا طبل بج گیا اور ہم ہاتھ ملتے ہی رہ گئے۔
دوسری اشاعت کا سنتے ہی (کوئٹہ دور است، کراچی سے جلدی پہنچ جائے گی) والی سوچ لے کر ریگل بک پوائنٹ کراچی کو 400 روپے ایزی پیسہ کرکے اپنا آرڈر بک کروالیا لیکن آج تک بیٹھے ہیں تصور جاناں کیے ہوئے۔ نہ کتاب آتی ہے نہ واٹس ایپ پر کوئی جواب!
خیر دو دن پہلے مصنف کی پوسٹ دیکھی کہ گوادر اور تربت والے ڈپریشن ڈائری کے لیے شیر دل غیب سے رابطہ کرلیں۔ یہ تو کمال ہوگیا بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں۔ غیب صاحب سے تو رابطے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ روزانہ ایک آدھ بار تو ملاقات ہوہی جاتی ہے۔ ویسے بھی وہ میرے کچھ زیادہ ہی پڑوس میں رہتے ہیں۔ اتنے کہ میرے چھینکنے سے نکلنے والی چھینٹیں اس کے صحن میں گرجاتی ہیں اور غیب جب "امبل" کے صفحات پلٹنا شروع کردیتے ہیں تو آوازیں مجھ تک پہنچ جاتی ہیں۔
تو بس کیا تھا پہنچ گئے رات کو۔ دیکھا کہ ہیٹر کے ارد گرد لکچرار حضرات کی چوکڑی جمی ہوئی ہے اور ڈپریشن ڈائری کا پاٹھ چل رہا ہے۔ غیب صاحب پڑھتے جاتے ہیں اور باقی کے تین دوست اڈے یار(اُف یار) کرتے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی محفل جوائن کرلی، دیکھا کہ یہ ساری نوحہ خوانی ہانی بلوچ والی کہانی پر ہو رہی ہے۔
سیاق و سباق سے ناواقفیت کی بنا پر ابتدا میں کچھ خاص پلے نہیں پڑا لیکن سنتے رہے۔ "جانے سے پہلے میں ایک رات تمھارے پہلو میں گزار کر جاؤں گی" کہانی یہاں تک پہنچی تھی کہ کھانا لگ گیا۔ اب کون سالہ مرد اس جملے سے آگے نہیں سننا چاہے گا۔ بقول میر "ہم سبھی مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ لگ بھگ سب کے سب"۔ خیر کھانا لگ چکا تھا دوست دسترخوان پر ٹوٹ پڑے۔
کھا نا تو ہم پہلے ہی کھاچکے تھے۔ سو کتاب اٹھائی بِنا قانونی کارروائی کے، بس شیر دل سے اتنا کہہ دیا کہ اگر ریگل کا وعدہ وفا ہوگیا تو وہ آپ رکھ لیں نہیں تو ایک چارسو روپے اور سہی۔ پھر کیا تھا؟ شیر دل صرف نام سے نہیں بل کہ دل سے بھی شیر ہیں۔ اپنے مخصوص انداز میں"قربان، قربان" کہہ کر گرین سگنل دے دیا۔ ہم گھر چلے آئے۔ سوچا کہ چند صفحے پڑھ کر ہی سویا جائے۔ ابھی ہم نے کتاب کھولی ہی تھی کہ بجلی اپنی اوقات دکھا گئی اور ہماری خواہش کا دم نکل گیا۔ اگلے دن (یعنی کل) حسب معمول دو پہر کا کھانا کھانے کے بعد لیپ ٹاپ اٹھا کر ہم کالج کی جانب چل دیے اور ساتھ میں"ڈپریشن ڈائری بھی اٹھائی، سوچا کل رات تو نہ پڑھ سکے۔ آج چند اوراق کو پریشان کر ہی لیتے ہیں۔
تین بجے ہم نے ایک غیر ضروری پیش لفظ کو غیر ضروری جان کر سرسری پڑھنا شروع کیا اور ساڑھے چھے بجے ہم ایک ایسی پتنی کا تبصرہ پڑھ رہے تھے جو اپنے پتی کو اس کے سارے پاپوں سمیت سویکار کرچکی تھیں۔ وہ اپنے ہم سفر کی رفیقِ سفر ہی نہیں بلکہ ہم سوچ اور ہم خیال بھی تھیں۔ درمیان میں وقت کیسے گزرا، صفحات کیسے پلٹتے گئے؟ کیسے ایک غیر ضروری پیش لفظ اتنا ضروری ہوگیا کہ بے حد ضروری کام "جو لیپ ٹاپ میں پڑے ہوئے تھے" پڑے کے پڑے رہ گئے، کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ جب ہوش سنبھالی تو طاہرہ بلوچ کے وی لاگ سے آگے کچھ بھی نہیں تھا۔ اندر اسٹاف روم کا سناٹا تھا اور باہر شفق تھی، جس کی سرخی پورے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔
میری زندگی کی پہلی کتاب کرشن چندر کی غدار تھی جو میں نے ایک نشست میں پڑھی تھی اور دوسری "ڈپریشن ڈائری"۔ جو بقول مصنف پتا نہیں کتاب ہے بھی یا نہیں۔ ڈپریشن ڈائری میں ایسا کیا ہے جس کی اتنی دھوم مچی ہے؟ لوگ کیوں دھڑا دھڑ اسے پڑھنے کے بعد اس کی شان میں سوشل میڈیا پر قصیدہ خواں ہیں؟ کتاب کیسے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس پر تبصرہ اگلی قسط میں۔
(جاری ہے)