Audio Leaks Aur Siasat
آڈیو لیکس اور سیاست
پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جہاں آئے روز ایک نیا سکینڈل عوام کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے تیاررہتا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو نے عدلیہ کی ساکھ پر گہرا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہم ایک ایسی ریاست بن چکے ہیں جہاں انصاف دینے والوں کے ضمیر، کسی بے گناہ کو مجرم بنتا دیکھ کر نہیں جاگتے بلکہ ان کے ضمیر خاص وقت پر جگائے جاتے ہیں۔ جس ملک کے آئین کی وقعت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کی محسوس نہیں ہوتی۔ جہاں قانون بنانے والے کو تو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہو مگر قانون توڑنے والے کو سرکاری اعزاز کے سپرد خاک کیا گیا ہو۔
تین سال کی طویل خاموشی کے بعد اچانک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پرایک سابق گلگت بلتستان کے چیف جسٹس رانا شمیم کے اپنے حلف نامے میں لگائے گئے الزامات نہ صرف سابق وزیراعظم نوازشریف کی سزا پر سوالیہ نشان ہے بلکہ اس ملک میں آزاد عدلیہ پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ جس ملک کی عدالتوں میں جسٹس قیوم، جسٹس ارشد ملک اور جسٹس ثاقب نثار جیسے کردار موجود ہوں وہاں عام آدمی کا انصاف نامی لفظ پر سےاعتماد کیوں نہ اٹھے؟ اوروہ انصاف کے حصول کے لیے کس کی جانب دیکھے؟
جہاں ججز کے احتساب کا سوال کرنے والوں کے لیے توہین عدالت کے فتوے جاری کر دیے جاتے ہوں، جہاں طاقتور عدالتوں سے من پسند فیصلے کراتے ہو، جہاں طاقت کے آگے سچ بولنے والے اور اپنے عہدے کے تقدس پر سمجھوتا نہ کرنے والے کا حال حسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسا کیا جاتا ہو، جہاں حق کے لیے کھڑے ہونے والے کو ملازمت سے جبراً برطرف کیا جاتا ہو مگرسچ اور حق پر حاوی ہونے والوں کو ایکسٹنشنز نصیب ہوتی ہوں تو وہاں سچ بولنے کا گناہ کون سرزد کرے۔ نا انصافی کے خلاف کون آواز اٹھاے؟ ظلم و ستم کی نشاندہی کون کرے؟
جس ملک میں ریاست مدینہ کی بات کرنے والے وزیراعظم انصاف کا راگ الاپتے نہ تھکتے ہوں وہاں انہی کو بر سر اقتدار لانے کے لیے جج کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے عوامی کوڑا دان میں پھینک دیا گیا، تا کہ وہ ساری زندگی ان الزامات کی تردید کے لیے کوشاں رہیں۔ ججز کی ویڈیوز، آڈیوز اور تاریخی اعترافات عدلیہ پر غیر جمہوری طاقتوں کے اثر و رسوخ کو چیخ چیخ کر بیان کرتے ہیں۔
جسٹس ارشد ملک کی ویڈیو اور اعترافی بیان کے بعد گلگت بلتستان کے چیف جج کے آنے والے ایفیڈیوٹ جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس پر الزام لگایا کہ انہوں نے 2018 میں ہائی کورٹ کے جج پر دباو ڈالا تھا کہ عام انتخابات سے قبل سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہا نہیں ہونے چاہیے، نے سیاسی منظر نامے میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے جس کے بعد سے عوامی رائے تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، نوازشریف کے چاہنے والے جو ان کو کسی حد کرپٹ سمجھ کر سیاسی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے لگے تھے، اب وہ نوازشریف کے حق میں آواز اٹھانے لگے ہیں، ان کو اس ملک کا ہیرو کہہ رہے ہیں، ان کے ساتھ کی جانے والی ناانصافی پر کسی مرغِ بسمل کی طرح تلملا رہے ہیں لیکن اس ریاست پاکستان کے باسی نواز شریف کو ہیرو بنانے اور ثاقب نثار کے کو برا بھلا کہنے سے پہلے جسٹس ملک قیوم کے کردار کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں، وہ کیونکر ان حقائق سے نظریں چرا سکتے ہیں کہ بس کل کے جسٹس قیوم آج کے ثاقب نثار ہیں، وہ کیسے اس سے نظریں اوجھل کر سکتے ہیں کہ جو بیج انوازشریف نے بویا تھا وہ اسی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔
نوازشریف کو مظلومیت کی ایک تصویر بنانے سے پہلے ہمیں ان آڈیو ٹیپس کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جس میں ہونے والی گفتگو یہ ثابت کیا تھا کہ جسٹس ملک قیوم نے وزیراعظم نواز شریف کی خواہش اور دبائو پر محترمہ بےنظیر بھٹو کو سزا سنائی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کس طرح نواز شریف کو نااہل کرایا گیا اور تبدیلی سرکار کو لایا گیا اور ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی لیکن جو نواز شریف کے دورِ حکومت میں ملک قیوم نے محترمہ بےنظیر بھٹو کےساتھ کیا اس کی سزا بھی تو کسی نہ کسی کو ملنا تھی۔ کچھ سزائیں عدالتیں نہیں قدرت دیتی ہے۔
میری نظر میں یہ نوازشریف کا مقافات عمل ہے۔ جس طرح کی سیاست انہوں نے کی تھی، آج اسی قسم کی سیاست کا سامنا کر رہے ہیں جیسے احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمن کے ذریعے انہوں نے احتساب کے نام پرسیاسی انتقام کی ریت ڈالی تھی آج چیر مین نیب جاوید اقبال کی صورت میں انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجھے کل کے جسٹس ملک قیوم اور سیف الرحمن آج کے جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس جاوید اقبال دکھائی دیتے ہیں۔
تاریخ بری ظالم چیز ہے، اس سے نہ سیکھنے والے اس کی زد میں آجاتے ہیں اس میں انصاف کی تحریک کے سربراہ محترم وزیراعظم عمران خان اور آنے والے حکمرانوں کے لیے سبق ہے کہ جب طاقتور ان کے لیے جج صاحبان سے دباؤ میں ناانصافی کراتے ہیں تو حکمرانوں کے لیے بھی ذلت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ یہ ذلت صرف ان کمزور ججوں کا مقدر نہیں بنتی بلکہ انہیں بھی رسوا کرتی ہے جو اقتدار کے نشے میں دُھت ہو کر ججوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اگر ثاقب نثار جیسے ججوں کو ایکسپوز کرنے والوں کو ایکسپوز نہ کیا تو ہر دور میں ایک ثاقب نثار ہوگا جو محض دباو پر غلط فیصلے کرنے پر مجبور ہوگا!