Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Salma Latif/
  4. Noor Muqaddam Case Aur Seekhne Walay Sabaq

Noor Muqaddam Case Aur Seekhne Walay Sabaq

نور مقدم کیس اور سیکھنے والے سبق

یہ دو امیر کبیر گھرانوں کی درد ناک کہانی ہے، ہماری اشرافیہ کا قصہ جو شاید اپنے نظام میں پڑنے والے کیڑوں سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے، نور مقدم سابق سفیر کی بیٹی اور ظاہر جعفر چارنسلوں سے کھرب پتی خاندان کا فرد ہے، دونوں میں دوستی اور وہ سب کچھ تھا جو امراء میں معیوب نہیں سمجھا جاتا، دونوں کے تعلقات میں دراڑ آئی، نور مقدم نے شادی سے انکار کردیا، کچھ عرصے کے بعد نور نے ظاہر کو دوبارہ پیغام بھیجا اور پھر تجدیدِ خاطر کی جگہ قتل جیسے جرم نے لے لی، اس سارے قصے میں بہت سی تفصیلات ہیں جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں، سوشل میڈیا پر اس سےمتعلق طوفان تھما نہیں ہے البتہ ہمارا مین اسٹریم میڈیا اس سارے قصے میں اب تقریبًاخاموش ہو چکا ہےاس خاموشی کی وجوہات کا تذکرہ بھی ہمارا موضوع نہیں کیونکہ امریکہ یا سیاست سے زیادہ اہم ہمارے نزدیک خاندانی اکائی اور اس سے جڑی وہ غفلتیں ہیں جو دانستہ یا نا دانستہ ہمارے معاشرے میں سرایت کررہی ہیں اور بد قسمتی سے ان پر سوچنے اور اثرات سے بچنے کے عملی اقدامات کا وقت شاید فکر ِمعاش میں مبتلا عام آدمی کے لیے کارِ زیاں بنتا جا رہا ہے۔ نور مقدم کیس ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جو نہ تو پہلا ہے نہ ہی آخری، اس میں منشیات کا حصہ بھی ہے، ذہنی نفسیاتی الجھنوں کا بھی، بے جا لاڈ پیار کا بھی، مادر پدر آزادی کا بھی، یہ اقدار کے نہ ہونے کا نوحہ بھی ہے اور اس کیس میں آپ کو جذباتی وابستگی سے لے کر بلیک میلنگ تک کے تمام رنگ بھی نظر آ جائیں گے۔ کوئی اس کے ڈانڈے شیطانی تنظیم سے ملا رہا ہے تو کوئی نورکی مظلومیت پر اکتفاء کئے بیٹھا ہے اور کوئی یہ حساب کتاب لگانے میں مصروف ہے کہ قاتل کو چھڑوانے کے لیے کون کون سے داؤ پیچ استعمال کیے جائیں گے، نور کے والدین یقینًا غم سے نڈھال ہیں لیکن بحیثیت والدین ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کب کرنا چاہیے، آئیے ایک نظر ان سوالات پر ڈالیں اور ان کے ممکنہ جوابات کو اردگرد کی حقیقت سے ملا کر اپنی کوتاہیوں کو صحیح کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ ہم سے ہماری اولاد کے بارے میں سوال ہوگا۔

سب سے اہم بات جسے صرف نظر کرنا خود کو بھی دھوکہ دینا ہے وہ یہ ہے کہ مہنگا اسکول یا کالج ہمارے بچوں کی تربیت ہم سے بہتر کر دے گا یہ ایک فاش غلطی ہے۔ فی زمانہ تعلیمی ادارے کتاب پڑھاتے ہیں تربیت نہیں کرتے یہ ہمیں خود کرنی ہے۔ اپنے بچوں کے اساتذہ کرام سے ملنا ہماری ذمہ داری ہے۔ تعلیمی ادارے کا ماحول کیسا ہے اس کی جانچ ہم نے کرنی ہے اسے نظر انداز مت کریں، خود زحمت کریں، اساتذہ سے ملیں ادارے کا عمومی ماحول دیکھیں اور اپنے بچے کی کارکردگی کے بارے میں جانیں، محض رقم کی ادائی سے فرض کی ادائیگی نہیں ہو جاتی۔ اپنے بچوں کے دوستوں سے ملنا ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور یقین مانیں آپ کے سوا نہ تو کوئی اور یہ ذمہ داری پوری کر سکتا ہےنہ ہی کرنا چاہتا ہے، ہمارےمعاشرتی نظام کی خرابی بڑھ رہی ہے اس دورِ فتن میں نفسا نفسی، حرص، ہوس اور حسد نامی عفریت ہم سب کے لئے خطرہ ہیں اور یہ خطرہ کسی بھی بھیس میں ہمارے اردگرد موجود ہو سکتا ہے کچھ والدین سادگی میں مار کھا جاتے ہیں کچھ بچوں پر اندھا اعتماد کرکے نقصان اٹھاتے ہیں اور کچھ اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چرا کر پچھتاتے ہیں۔ بچوں کی صحبت اور ان کی سرگرمیاں جانچنا ہمارا فرض ہے بچے کس وقت کیا کر رہے ہیں، کن کے ساتھ ہیں اور کیوں ہیں یہ سب اہم سوالات ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ بچوں کو قیدی ہونے کا احساس دلائیں یا بے جا سختی اور پابندی لگائیں۔ ان تمام احتیاطی تدابیر کا مقصد خود کو اور اپنے خاندان کو تکلیف اور نقصان سے بچانا ہے، بچے آپ سے ہر بات ہر مسئلے پر بات کریں یہ ماحول آپ نے فراہم کرنا ہے۔

اس وقت ایک بہت تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماری منشیات کا استعمال ہے جو کہ ہمارے نوجوان شوق اور اسٹیٹس کے زعم میں بلا دریغ کرتے جا رہے ہیں اس کے لئے رقم کی مسلسل فراہمی ایک اور دروازہ ہے جو اکثرجرم کی راہ کی طرف کھلتا ہے کہیں آپ کا بچہ خدا نخواستہ کسی نشے کا عادی تو نہیں؟ بہت عام سے مشاہدے سے بھی یہ بات سمجھی جا سکتی ہے اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، نشے کے استعمال کے بعد ہائی ہو جانے والا نوجوان کسی بھی جرم پر آسانی سے مائل ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت وہ جرم جرم نہیں تفریح لگتا ہے اور ایسی تفریحات کا شوق ہمارے نوجوانوں میں تیزی سے پھیلتا جارہا ہےاوریہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ بچوں میں اقدار اور حدود کا تعین بھی ہماری ذمہ داری ہے لیکن اس سے پہلے یہ خود ہم میں موجود ہونی چاہیے اگر ہم خود پیسہ کمانے کی مشین بن چکے ہیں تو بچوں سے متعلق ہماری ذمہ داریاں نہ تو خود بخود پوری ہوگی نہ ہی رقم دے کر پوری کی جا سکتی ہیں اس وقت پاکستان کا ایک بڑا طبقہ مختلف قسم کے ذہنی دباؤ کوبرداشت کر رہا ہے نفسیاتی الجھن ایک مسئلہ ہے جس کا حل بھی موجود ہے اگر آپ کا بچہ کسی قسم کے نفسیاتی مسئلہ کا شکار ہے یارہ چکا ہے تو اسے چھپائیے مت، اس کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں جیسے اس کیس میں نظر آئے۔ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی مسائل پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے کجایہ کہ ان کا علاج کیا جائے اپنے بچوں کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے باخبر رہیےاور ضرورت پڑنے پر ان کا علاج کروائیں۔ صرف کسی تھراپی کرنے والے کی خدمات خرید لینے سے آپ کے بچوں اور ان کے اردگرد موجود افراد کے مسائل حل نہیں ہوں گے اگر ایسا ہوتا تو شاید نور مقدم اس طرح قتل نہ ہوتی۔

بے تحاشہ دولت اپنے ساتھ بے تحاشہ مسائل بھی لاتی ہے یہ بات شایدپر آسائش زندگی کے لیے جان توڑ محنت کرنے والا شخص نہ سمجھ سکے لیکن یہ حقیقت ہے، بغیر محنت کے ملنے والی دولت اپنے ساتھ فتنہ لاتی ہے اپنے بچوں کو پیسوں کا عادی مت بنائیں انہیں پیسہ کمانا سکھائیے۔ محنت کرنے کا ہنر دیجئے، پیسہ نہیں۔ اس کیس میں ایک بہت اہم بات نوجوان بچے بچیوں کا آپس میں گھلنا ملنا ہے ہم جتنی مرضی کوشش کر لیں آگ کے ساتھ پٹرول رکھیں گے تو حادثہ ضرور ہوگا، یہ فطری ہے، نور مقدم گزشتہ کئی سالوں سے ملزم ظاہر جعفر کے ساتھ ہر طرح کے تعلق رابطے میں تھی، قتل سے پہلے وہ اس کے گھرمیں رہی اور اپنے والدین کے لئے پیغام چھوڑا کہ دوستوں کےساتھ لاہور جا رہی ہے یہ ہمارے ایک مخصوص طبقہ میں بالکل عام سی بات ہے خدارا اپنی اخلاقی اور مذہبی حدود کے اندر رہیے اور بچوں کو بھی سرخ نشان اچھی طرح ذہن نشین کروائیے۔ ورنہ یہ تباہی کسی کا گلشن نہیں چھوڑے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کالج اور یونیورسٹی سے شروع ہوتا ہے۔ جی نہیں۔ تربیت کا آغاز ابتدائی عمر میں ہی اپنے گھر سے ہو جاتا ہے کالج یونیورسٹی میں تو ہم اس تربیت کے اثرات دیکھتے ہیں۔ یہ کالم محض الفاظ نہیں بحیثیت معلم اور ماں ہمارے بگڑتے ہوئے معاشرے اور مرتی ہوئی معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی اقدار کا نوحہ بھی ہے۔ خدارا اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال آج رکھیے تاکہ کل محفوظ ہوسکے۔

Check Also

Hamein Maaf Kar Do Agle Saal Conference Nahi Hogi

By Raheel Moavia