Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salma Latif
  4. Mujhe Kis Se Darkhast Karni Hai?

Mujhe Kis Se Darkhast Karni Hai?

مجھے کس سے درخواست کرنی ہے؟

ایک باشعور پاکستانی جو مسائل شدت سے محسوس کرتا ہے۔ ان میں سے ایک ہمارے بچوں کی نظریاتی تربیت بھی ہے۔ ایک مڈل کلاس خاندان کے لیے تفریح کی اہمیت ہونے کے باوجود، وسائل کی متواتر فراہمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مسئلے اپنی جگہ منہ کھولے کھڑے رہتے ہیں۔ ایک جدوجہد کرتے ہوئے خاندان کے لیے بچوں کے نظریاتی توازن کا خیال رکھنا اور ان نظریات کی آبیاری کرنا یقیناً ایک مشکل کام ہے جسے اکثر مراعات یافتہ طبقہ سمجھ نہیں پاتا کیونکہ ان کے نزدیک نہ تو یہ اہم ہے اور نہ ہی آبیاری کرنے کی ضرورت۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ مسئلہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا ہے۔

ایک عام پاکستانی کی تفریح کا سستا ترین ذریعہ ٹی وی ہے جو تقریباً ہر گھر میں موجود ہے۔ اس میں بچوں کی تفریح کے لیے مختلف کارٹونز مختلف چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں کارٹون چینلز کی تعداد زیادہ ہے لیکن اندرون ملک دور دراز کے علاقوں میں یہ تعداد محدود ہے۔ اور بچے وہی دیکھتے ہیں جو دکھایا جاتا ہے اور دکھایا کیا جاتا ہے؟ کارٹون کے مشہور چینلز میں سے ایک کارٹون نیٹ ورک ہے۔ جو پاکستان میں 2004 سے کام کر رہا ہے۔ سرسری ریسرچ سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس چینل پر پیش کیا جانے والا مواد انڈیا میں پیش کیے جانے والے مواد پر مشتمل ہے۔

لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ پہلے یہ سب انگریزی زبان میں برصغیر کے لیے پیش ہوتا تھاجس میں وارنر میڈیا کی زیر سرپرستی بننے والے کارٹونز پیش کیے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ ہندی میں ترجمہ ہونے لگے۔ کچھ عرصے بعد ہندو مذہب کے پرچاروں سے بھرے ہوئے کردار نمودار ہوئے اور اسکرین پر موجود کلاسک کرداروں کی جگہ لینی شروع کردی۔ یہ سلسلہ اب اس قدر دراز ہوچکا ہے کہ بنیادی کردار کبھی کبھار ہی اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ ہندو دیو مالائی کردار بھجن کی طرز پر جنگلز، بھارت ماتا کی قسمیں، تلک، نمستے ،دیوی دیوتا ،مافوق الفطرت ہندو کردار، ہندو رسم ورواج اور طرزمعاشرت ہندوانہ نام اور لباس زبان اور بول چال یعنی زندگی کا ہر پہلو ہندو کلچر کا پرچار کرتا نظر آتا ہے۔ بقول شاعر " کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں " یہ سب احاطہ تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں۔ عام پاکستانی بچہ صرف ہندو طرز زندگی دیکھ رہا ہے جس میں ہندو سورما دنیا کو بچا رہے ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے جب بھی ان کارٹونز میں کوئی ظالم ڈاکو لٹیرا یا برا کردار دکھایا جاتا ہے اس کی وضع قطع مسلمانوں جیسی اور مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ اکثر لٹیرے تندومند داڑھی والے بغیر مونچھوں کے اور بدزبان دکھائے جاتے ہیں جو ہمیشہ برائی کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں دنیا ان کے مظالم سے تنگ ہے اور ہندو دھرم کا کوئی سورما آتا ہے اور ان ظالموں کو تہس نہس کردیتا ہے۔

ہمارے بچے اس پر تالیاں بجاتے ہیں بھجن کی طرز پر شیوا اور کرشنا کے گیت گاتے ہیں یہ سب کچھ بچوں کے کچے ذہنوں پر نقش ہورہا ہے۔ آج سے دس سال بعد یہ بچے جب عملی میدان میں اتریں گے تو ان کے ہیروز کون ہوں گے؟ کسی بھی باشعور پاکستانی کی طرح مجھے بھی اپنے بچوں کی نظریاتی سرحدوں کو محفوظ دیکھنے کی خواہش ہے لیکن مجھے راستہ نظر نہیں آرہا۔ آس پاس ٹی وی اسکرینز پر وڈیو گیمز میں کہیں بھی مجھے پاکستانیت کی چھاپ تو کیا پرتو بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک کم فہم انسان ہونے کی حیثیت سے میں ہر گز نہیں جانتی کہ اس مسئلے کے حل کے لیے مجھے کہاں جانا چاہیے۔ کون سا ایسا درد مند لیڈر ہے جسے یہ پڑی ہو کہ آنے والا کل کس کھائی کے کنارے کھڑا ہے۔ آخر انڈین چینلز نے ہمیں پہلے کون سے سرخاب کے پر عطا کر دیئے ہیں جو ہم اس کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے اگر کوئی مجھ پر متعصب ہونے کا لیبل لگائے تب بھی میں اپنے بچوں کو بھجن اور تلک کے حوالے کرکے کسی دیوی یا دیوتا کا ہونے نہیں دے سکتی۔ بہت سے تحفظات کے ساتھ ساتھ میرے کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات کون دے گا اور ان جوابات کا اطلاق کون کرے گا میں اس سے بے خبر ہوں۔

میرا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے بچے دس سال کے بعد کسے ہیرو کے طور پر دیکھیں گے؟ یہ ایک عام پاکستانی بچے کے لیے کیا جانے والا سوال ہے جس کے والدین یا تو روزی روٹی کے چکر میں گھن چکر بن چکے ہیں یا پھر انہیں اس کا ادراک ہی نہیں۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارے چینلز پر ہندو مت کے پرچار سے بھرے کارٹونز دکھائے جانے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہمارے ملک میں بننے والا کوئی بھی کارٹون کریکٹر اس قابل نہیں کہ اسے پیش کیا جاسکے؟ اگر جواب ہاں ہے تو اسے پیش کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ تمام بچے دیکھ سکیں اگر نہیں تو کون بنائے گا؟ ایک اور سوال یہ کہ ہم اپنے بچوں اپنےتہذیب و ثقافت اور مذہب سے وابستہ کردار اور نظریات سے روشناس کیوں نہیں کرواتے؟ اس تک رسائی اس قدر مشکل اور پیش کش بین الاقوامی معیار کی کیوں نہیں؟ مجھے یہ سب کس سے پوچھنا چاہیے؟ بچوں کی ذہنی اور نظریاتی تربیت کے لیے کوئی ادارہ کیوں نہیں؟ جو آج کے اس ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں ہمارے بچوں کو ہمارے معاشرے کی بہترین تصویر دکھائے جس میں ہمارے یہی بچے مستقبل میں رنگ بھریں گے۔

بھارتی لابی پروپیگنڈا کرنے کی ماہر ہے۔ وہ جھوٹ کو سچ دکھادینے کے سرخیل ہیں بغل میں چھری رکھ کر قریب آنے کے شائق درختوں کی جڑوں میں میٹھا ڈال کر غرق کر دینے کے فلسفے کو ماننے والے کالی داس کے بھگت ہم کب تک سوتے ر ہیں گے؟ محترم صدر صاحب کیا آپ سنیں گے؟ وزیر اعظم صاحب کیا آپ عام پاکستانی کی تکلیف کو محسوس کریں گے؟ جناب ڈی جی صاحب کیا آپ کچھ وقت اس پر صرف کرسکتے ہیں؟

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi