Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Salma Latif/
  4. Jinsi Istehsal Se Bachon Ki Hifazat (1)

Jinsi Istehsal Se Bachon Ki Hifazat (1)

جنسی استحصال سے بچوں کی حفاظت (1)

پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں میں جنسی ہراسگی کے اعداد و شمار ہو شربا اور دل دہلا دینے والے ہیں۔ ہماری نظر سے اکثر خوفناک چیزیں گذرتی رہتی ہیں لیکن بد قسمتی سے معاشرے میں موجود عمومی ہیجان اور میڈیا کے مختلف ذرائع پر موجود خصوصی تندی و تیزی ہمارے اذہان سے خطرے کی وہ گھنٹی بھی محو کردیتی ہے جس کے بجنے پر ضروری احتیاط و تدابیر ہمیں کسی بڑے نقصان سے بچا سکتی ہیں۔

پاکستان میں جنسی ہراسگی کے واقعات میں گذشتہ 5 سال میں اندھا دھند اضافہ ہوا ہے۔ بچوں میں اسکی شرح مزید خوفناک ہے۔ ایک محتاط سروے کے مطابق ہر چھٹا بچہ یا بچی جنسی ہراسگی کا شکار ہے یا بنتے رہے ہیں، تقریباً ٪97 کیسز میں متاثرین ایک سے زیادہ بار نشانہ بنتے ھیں ٪70 وہ لوگ آپ کے بچے کو نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں جنھیں آپ جانتے ہیں اور اعتماد کرتے ہیں۔ یہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ دوست، رشتے دار، قابلِ بھروسہ ملازمین، کوئی بظاہر مظلوم جس پر آپ نے ترس کھایا ہو، کوئی دیکھنے میں شریف نیک پرہیزگار، کوئی بھی، یہ ایک وائرس جیسا ہے، وہ وائرس جو ذہنی مریض بنا دیتا ہے اور حرمت کے رشتے تک پامال ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے ذہنی مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ہم دوسروں کے جلتے گھروں کو دیکھ کر فراموش کردیتے ہیں۔ محض لذت انگیزی اور ہیجان کے سبب ہم نت نئی خبروں میں کھو کر بجنے والی گھنٹی سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

جنسی ہراسگی کا شکار زیادہ تر بچے 4 سے 12 سال تک کی عمر کے ہوتے ھیں۔ خطرہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بظاہر کوئی جگہ محفوظ دکھائی نہیں دیتی۔ بچے عموماً اس طرح کے مسائل میں اپنی بات پہنچا نہیں پا رہے ہوتے مشاہدے سے ہمیں معلوم ہو سکتا ہے اگر بچہ کسی ایسے مسئلے سے دو چار ہو، ہم کچھ اہم علامات بیان کریں گے جو اس ضمن میں والدین کی رہنمائی کر سکیں۔ ہم یہاں کچھ ایسے طریقے بھی بیان کریں گے جو اس دورِ فتن میں بچوں کو مضبوط بنانے میں ان کی مدد کر سکیں اور یقیناً یہ کام والدین اور اسائذہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ تحقیقات کے مطابق بڑوں میں سے بھی تقریباً ٪60 لوگ بچپن میں جنسی ہراسگی کا شکار بن چکے ہیں اور ذہنی امراض کی ایک بڑمی وجہ بچپن کے یہ مسائل بھی ہیں جن پر بات کرنا ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک برائی تصور ہوتا ہے۔ زیادہ تر والدین بچے کے بدلتے ہوئی رویے کو سمجھ نہیں پاتے اور بچہ کافی وقت تک یہ بات اپنے والدین یا بڑوں کو بتانے کے قابل ہی نہیں ہو پاتا۔ تین یا چار سال کا بچہ یا بچی کیا بتا سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا یا کیا ہو رہا ہے؟ بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں ایسے الفاظ ہی نہیں ہوتے، کشمور کا واقعہ اسکی ایک مثال ہے۔ اس میں درندگی کی انتہا کردی گئی اور دلیری ونجابت کی بھی۔ اکثر متاثرین تک مدد بر وقت پہنچ نہیں پاتی۔ اور بہت سے پوری عمر اس کا ذکر تک نہیں کرپاتے، محض برے اثرات کے ساتھ زندگی گذارتے رہتے ہیں۔

والدین اور اساتذہ کو بچوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں جلد دکھائی دے جاتی ہیں۔ بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی کا کم ہوجانا یقیناً ایسی بات نہیں جسے نظر انداز کیا جاسکے۔ اکثر بچوں کو ورغلایا بھی جاتا ہے یعنی اگر بچے کو آپ نے کسی چیز سے منع کر رکھا ہے اور آپ کے گھر میں آنے جانے والے افراد کو اس کا علم ہے، تو یقینًا فائدہ اُٹھانے والے آپ کے بچے کو ورغلا سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ یا رسائل میں ایسا مواد موجود ہے جسے دکھا کر بچوں کو بُرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیب خرچ یا پسندیدہ چیز کی لالچ میں بھی بچے غلط حرکت کر سکتے ہیں۔ ایک بار اگر بچے کے ساتھ کچھ ایسا ہو گیا تو بچہ فطری طور پر احساسِ گناہ اور احساسِ جرم کا شکار ہو سکتا ہے اور ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں بچوں کی نازیبا وڈیوز بناکر ایک طرف تو ڈارک نیٹ پر اپ لوڈ کردی گئیں دوسری جانب بچوں کو بلیک میل کر کے یہ سب کرتے رہنے پر مجبور کیا گیا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم جن کے بارے میں خبر سن رہے ہوتے ہیں وہ بھی کسی کی اولادہیں اور اُن میں سے اکثر کے والدین لا علم رہ جاتے ہیں۔

اگر بچہ کسی کے پریشر میں آکر کسی بھی وجہ سے کوئی ایسی حرکت کر رہا ہے جو کہ جنسی استحصال کے زمرے میں آتی ہے تو بچے میں کچھ تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی، آپ بچے کی عادت کا مشاہدہ کرتے رہئے آپ کو بہت سے باتیں پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ آپ خود سمجھ لیں گے۔ سب سے پہلے تو بچے کی بھوک ختم ہو جائے گی یا کم ہو جائے گی۔ بچہ گم صم اور پریشان رہنے لگے گا۔ خوف اس کے رویے سے ظاہر ہوگا۔ بچے کی نیند خراب ہوجائے گی، بعض اوقات بچہ نیند کے عالم میں، چیخ مار کے جاگ جائے گا۔ خوفزدہ ہوگا۔ بہت اہم نشانی یہ کہ بچہ کھیل کود سے بے رغبتی اختیار کرے گا۔ کھیلنے کودنے میں دلچسپی نہیں لے گا اور ایک عمومی سستی اور بیزاری کا شکار نظر آئے گا۔ ایک اور بہت اہم علامت یہ ہے کہ پیٹ خراب نہ ہونے کے باوجود بچہ باربار واش روم جائے گا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بچے کے ساتھ کچھ ایسا مسئلہ ہے جسے وہ چھپا رہا ہے۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad