Ghar Se Parhane Se Ghar Se Seekhne Tak
گھر سے پڑھانے سے گھر سے سیکھنے تک
دنیا ایک غیر معمولی وائرس زدہ حالت سے گذر رہی ہے۔ گو کہ اس کا خوف پہلے سے کم ہے لیکن اس سے نجات کی کوئی ٹھوس صورت فی الحال رسائی سے باہر ہے۔ ان حالات میں تعلیمی اداروں کی دوبارہ بندش بذاتِ خود ایک مشکل صورتحال ہے۔ چھوٹے بچوں سے لے کر یونیورسٹی تک کے طلبہ مشکل سے گزر رہے ہیں۔ والدین کو الگ پریشانی ھے۔ ایک تو سردیاں، اوپر سے پریشانی میں بھوک کا بڑھ جانا اور ستم بالائے ستم اشیائے خور و نوش کی گرانی اور اس کے نتیجے میں بھوک کا مزید بڑھنا۔ لیکن با خدا ہمارا مقصد آٹے دال کی قیمت کو رونا ہر گز نہیں اس کے لئے سارا ملک موجود ہے۔ یہاں ہم چند ایسے معمولات کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جو اگر اپنا لیے جائیں تو ہم اپنے بچوں کے لیئے بہت سے چیزیں آسان کر سکتے ہیں۔
اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارئیے، یہ وہ پہلا ضروری کام ہے جو نہ صرف آپکی ذہنی حالت بہتر بنائے گا بلکہ آپ کے بچے کو آپ سے جوڑے گا۔ اگر ہم غور سے خودکو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ اچھا وقت نہیں گذار رہے ہوتے، صبح اسکول، دوپہر میں قرآن کلاس، شام کو ٹیوشن، اکیڈمی اور رات کا تفریحی پروگرام۔ اس میں آپ کا اپنے بچے کے ساتھ واسطہ یا تو احکامات کا ہوتا ہے، یا سوالات کا، اس کے علاوہ ہم اپنے بچے کو کیا دے رہے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے کیونکہ محض پیسے کما کر بچوں کے لیے مہنگے ٹیوٹر خرید لینے سے بچے کی تربیت کی ذمہ داری مکمل نہیں ہو جاتی۔ اپنے بچے کے ساتھ وقت گزارئیے۔ روز اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت پڑھنے میں گذاریں لیکن ایک منٹ، پڑھنے سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ کورس کی کوئی کتاب اٹھا کر سوال جواب شروع کردیں۔ ذرا اپنا بچپن یاد کریں اور اپنی حسرتوں میں سے کچھ قیمتی (کچھ نہ کچھ قیمتی ضرور ہوگا) نگینے اپنے بچوں کے چھوٹے سے آسمان پر ٹانک دئیجیے، انھیں جگمگا نے دیں، چاند، پھول، ستاروں اور خوبصورت کہانیوں کے دیس میں لے کر جائیں، بچوں کے ساتھ کتاب اور پڑھنے سے حظ اٹھائیے، یقین مانیئے آپ اپنے تفکرات بھول جایئں گے اور بچوں کو پڑھنے کی عادت پڑے گی، زبان کی فکر نہ کریں، اردو، انگریزی، سندھی، پشتو، یا کوئی بھی اور زبان ہو۔ کیا پڑھ رہے ہیں اس کا خیال کیجیئے، اپنی نہیں بچے کی نظر سے انتخاب کیجئے، وہ جو تفریحًا پڑھا جائے اور اخلاق سازی کر جائے۔
ہوم اسکولنگ کا ایک بہت اہم کام بچوں کو حساب کتاب سمجھانا بھی ہے، یہ اتنا مشکل نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ آسان اور سادہ طریقے، جیسے بچوں کا اور اپنا قد ناپئیے، پھر جمع تفریق کرتے ہوئے بچوں کو ان کا فرق نکالنا سکھائیے۔ گھر میں موجود سامان میں سے ہی ایک چھوٹی سی گروسری شاپ کا تصور دیجئے جہاں کا روبار کیسے ہوتا ہے؟ پیسے کیسے دینے چاہئیں؟ کس طرح ادائی ہوتی ہے؟ وغیرہ سکھائے جا سکتے ہیں اور بھی بہت کچھ، صرف تھوڑا سا اچھا وقت اور محنت آپ کے بچوں کو عملی دنیا میں کامیاب ہونے کی ٹھوس بنیاد فراہم کرئے گی۔
معاشرتی ترجیحات اور ان میں بگاڑ اس لیے بھی نظر آتا ہے کہ ہم نے تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ٹیوٹرز کے سپرد کردی ہے اور ظاہر ہے اس کی ادائی دونوں طرف سے نہیں ہوئی اور نقصان سراسر بچوں کا ہے۔ معاشرتی علوم ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا ایک دوسرے درجے کا مضمون سمجھا جاتا ہے جسے ہمارے ہاں کہیں بھی مکمل پذیرائی میسر نہیں۔ معاشرتی مہارتیں دنیا بھر میں سائنس کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں سماج میں زندہ رہنے کے لیے کن طریقوں کو سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ اپنے بچے اور اس تھکی ماندی قوم کے تازہ دم سلجھے ہوئے مستقبل کے لیے گھر سے یہ علم بچوں میں منتقل کرسکتے ہیں اور اسی بہانے ہم بڑے بھی اس بھولے بسرے علم سے روشناس ہوجائیں گے۔ اٹھنے بیٹھنے کی تمیز سے لے کر دوسروں سے معاملات تک، اس وبا سے بچنے اور طویل عرصے تک بچے رہنے کے اصولوں کی روشناسی سے لے کر بنیادی صفائی ستھرائی اور ماحول دوست عادتوں تک، اشیاء کے درست استعمال اور دوبارہ استعمال کرنے سے لے کر، رشتوں کو نبھانے کی سادہ روایات تک، ہر چیز اس علم میں سما سکتی ہے۔ لاک ڈاون کے دنوں میں آرام سے بیٹھ کرخود کو، اپنے گھر کے ماحول کو، بہتر بنانے کی نظر سے دیکھئیے اور عملی طریقے اختیار کیجئے۔ یہ وقت یقیناً زحمت کا ہے لیکن اسی مشکل میں آسانی چھپی ہے۔
ایک اور بہت ضروری کام اپنے گھر میں لائبریری یا ریڈنگ کارنر کا قیام بھی ہوسکتا ہے۔ والدین بچوں کے پہلے رول ماڈل ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ہم اس حقیقت پر زیادہ غور کرنےکے عادی رہے نہیں ہیں، والد صاحب موبائل، سگریٹ یا دوسری اشیاء میں مصروف ہیں اور والدہ باورچی خانے، غیر ضروری شاپنگ، طویل گپ شپ اور لذیذ تراکیب یا ڈراموں میں مصروف ہیں، بچے کیا کر رہے؟ عموماً موبائل گیمز یا کارٹونز بچوں کو بہلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، ہماری درد مندانہ گزارش ہے کہ پرائم ٹائم میں کارٹون بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھئے، آپ میں ذراسی بھی ہوش مندی ہوئی تو آپ ضرور بچوں کو ہندو مذہب کے پرچار سے آلودہ شیوہ، بھیم، کرشنا، سمبا اور ایسے ہی بہت سے دوسرے کرداروں سے دور رکھنے کیلئے عملی اقدامات کریں گے۔ اس کا ایک بہترین متبادل کتاب سے دوستی ہے۔ اپنے گھر میں ہی ایک ریڈنگ کا رنر بنائیے، جہاں ہر روز (کم از کم اکیس سے چالیس دن) بچوں کے ساتھ بیٹھ کر لکھنے پڑھنے میں وقت گذارئیے، خواہ یہ محض آدھا گھنٹہ ہی ہو۔
بچوں کی دلچسپی کی کتب اور رسائل جمع کیجئے، انٹرنیٹ سے مدد لیجئے اور روزانہ کی بنیاد پر خود بھی پڑھیے اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ پڑھائیے۔ دیوار پر دنیا کا نقشہ لگائیے اور بچوں کو مزے مزے سے جغرافیہ اور پڑوسی ممالک سمجھا دیجئے، مختلف علاقے ریگستان، پہاڑ، وادیاں، سمندر، دریا، بارانی جنگلات، جنگلی و آبی حیات غرض ہر قسم کی وہ معلومات جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ضروری بھی ہیں آپ بچوں کو کھیل کھیل میں سمجھا سکتے ہیں۔
تجربے سے ثابت ہے کہ بچوں میں اپنے والدین کی طرف سے عادتیں اپنانے کی خو فطری ہوتی ہے، آپ کی بہترین سرمایہ کاری آپ کے بچے ہیں، ان میں اچھی سرمایہ کاری یقیناً آپ کے اور ان کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ لیکن خیال رہے، اپنے بچوں کا موازنہ دوسروں سے کبھی مت کریں۔
خاندان اور اس سے جڑے رشتے ہی معاشرہ بنا تے ہیں، اس لاک ڈاون میں اپنے خانداں کی سمت درست کیجئے، اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارئیے، لکھیے پڑھیے اور معاشرتی اصول سکھائیے۔ بچپن کے یہ نقش یقیناً بچوں کی زندگی میں مشعلِ راہ ہوں گے۔ بظاہر نظر آنے والی یہ چھوٹی باتیں دراصل دور رس نتائج کی بنیاد ہیں، آزما کر دیکھ لیجئے۔