Choose Your Battles Wisely
چوز یؤر بیٹلز وائزلی
اس کی عمر 21 سال کے قریب قریب تھی۔ کشادہ پیشانی، کھلتا ہوا گندمی رنگ، بھرے بھرے ہونٹ اور سیاہ گھور آنکھیں۔ وہ اپنے ماموں زاد کی قاتلہ تھی یہ قتل اس نے اپنے آشنا کی مدد سے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ کیا۔ ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے حیدرآباد ہوسٹل میں رہتی یہ لڑکی ایک غریب متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جس کے والد ایک عام سا جنرل اسٹور چلاتے تھے۔ لڑکی ذہین تھی۔ پڑھتے پڑھتے یونیورسٹی تک پہنچی۔
یہاں حسرتوں پر پَر لگے، کچھ ناتمام آرزوئیں تکمیل کی راہ پر دوڑنے لگیں، کچھ فطری ذہانت نے رنگ ڈھنگ بدلے اور یوں اس لڑکی کے ایک، دو نہیں کئی دوست بن گئے۔ ان میں ایک پولیس کا ایس ایچ او بھی تھا۔ لڑکی کا ماموں زاد کزن اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس لڑکی کے ساتھ حسین دن اور یادگار راتیں گزارنے لگا۔ لڑکی رنگ برنگے ملبوسات، کرائے کی گاڑیوں اور ہوٹلوں میں کھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے طول و عرض کی سیر بھی کرنے لگی اور ایک ساتھ کئی دوستوں کو بھگتانے میں طاق ہو گئی۔
گھر والوں کی جانے بَلا، گھر میں کچھ لا ہی رہی ہے ناں، نت نئے کپڑے، ساز و سامان، رنگ برنگے برتن غرض سب کی آنکھوں پر لالچ نے پٹی باندھی اور سب نے خوشی خوشی یہ پٹی بندھوا بھی لی۔ کزن شادی کے لیے بضد ہوا، اُدھر پولیس والے کی ناک بیچ میں آ گئی۔ لڑکی نے کزن سے چار لاکھ روپے اپنے اکاؤنٹ میں ڈالوائے۔ نوکری اور شادی کا جھانسا دے کر ایک مقررہ جگہ بلوا لیا۔
اِدھر پولیس والے کے ساتھ قتل کی پوری پلاننگ کی، گاڑی میں گھومتی رہی، وقت مقررہ پر لڑکا مخصوص روڈ پر جاتا دکھائی دیا، پولیس والے نے اُجرتی قاتل گاڑی سے اتارے، انہوں نے سڑک کنارے لڑکے کی موٹر سائیکل روکی، سر، آنکھوں اور سینے میں گولیاں اتاریں، بٹوے سمیت تمام شناختی علامات ضائع کیں اور فون پر کام ہو گیا کا پیغام بھیج دیا۔ لڑکی نے پولیس والے کے ساتھ خوشی منائی، کے ایف سی سے کھانا کھایا اور پولیس والے کی ہدایت پر اپنے گاؤں واپس آ گئی۔
لڑکے کی لاش ملی، گمنام تصور ہو کر دفنا دی جاتی اگر لڑکے کا باپ گمشدگی کی رپورٹ درج نہ کرواتا۔ آفس نہ آنے پر گاؤں میں رابطہ کیا گیا گھر والے سمجھتے رہے آفس میں ہے اور آفس والے سمجھے گھر پر ہے، وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ جواں سال بیٹے کے قتل نے گاؤں کو سوگوار کر دیا۔ لڑکی آرام سے گھر میں بیٹھی رہی، پولیس تفتیش کے لیے آفس پہنچی، دراز میں وہ بینک رسید ملی جس سے ثابت تھا کہ واقعہ ہونے سے ایک روز پہلے لڑکے نے (اپنی بہن سے پیسے قرض لے کر) ایک اکاؤنٹ میں چار لاکھ ٹرانسفر کیے ہیں۔
وہ رسید پولیس کو اس لڑکی تک لے گئی۔ لڑکی گرفتار ہوئی اور جلد ہی اعتراف کر لیا۔ پولیس والے پر سارا الزام دھرا، وہ پولیس والا مفرور ہوا، لڑکی جیل گئی اور وہ مقتول لڑکا عین جوانی میں ماں باپ کو توڑ گیا۔ اندرونِ سندھ کے ایک چھوٹے سے قصبے کی یہ کہانی فیس بُک پر اور بہت سی ایسی کہانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ دنیا و آخرت کی بربادی کی ایسی بہت سی کہانیاں روز پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔
ہمارا موضوع مصالحہ نہیں ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ جب وہ غریب متوسط طبقے کی لڑکی اعلیٰ درجے کے ملبوسات، پرفیوم، ہینڈ بیگ اور جوتے استعمال کر رہی تھی تو والدین نے سوال کیوں نہیں کیا؟ جب وہ ٹیکسی کے ذریعے ہوسٹل سے گھر آ رہی تھی تو والدین نے باز پرس کیوں نہیں کی؟ جب وہ پاکستان کے ٹور پر کزن کے ساتھ شب و روز گزار رہی تھی تو والدین کی آنکھیں بند کیوں تھیں؟
لڑکی گھر میں واحد پڑھی لکھی بچی نہیں ہے، اس کی بڑی بہن کالج میں لیکچرار ہے، بھائی جو اس وقت گھر میں بند رہتا ہے کاش تب آنکھیں کھول لیتا، تین گھرانے برباد ہونے سے بچ جاتے، لیکن تربیت کا فقدان ہمیں لالچ کا آسان شکار بنا دیتا ہے اور بعد میں ہم مظلومِ زمانہ کہلانے لگتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے "دعاء زہرا" کیس میں بھی مسئلہ پسند کی شادی اور گھر سے فرار نہیں، یہ تو نتیجہ ہے۔
آپ جتنا چاہیں شور مچائیں، بنیادی سوال تو جواں ہوتی بچی کا بے تحاشہ اسکرین ٹائم ہے۔ والدین کہاں تھے؟ اب پچھاڑیں کھانے، دہائی واویلا کرنے، حتیٰ کہ فرقہ واریت کا کارڈ کھیلنے سے بھی آپ کی بچی پہلے والی حالت میں واپس آ جائے گی؟ جب یہ نتیجہ حالات کی کوکھ سے جنم لے کر پھل پھول رہا تھا تب آپ کی مصروفیت آڑے کیوں آئی؟ آپ کو معلوم کیوں نہیں ہوا بچی کیا کر رہی ہے؟ اصل مدعہ یہاں ہے۔
دو دوستوں کی سیاسی بات چیت کرتے کرتے تُو تُو میں میں ہو گئی جو اتنی بڑھی کہ ایک دوست نے دوسرے کے سر میں اینٹ مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ اور ایسے بہت سے واقعات آخر بحیثیت فرد ہم آتے کہاں سے ہیں؟ گھر سے، والدین، قریبی رشتے دار، دادا، دادی، کزن، دوست احباب، اسکول، کالج کے اثرات۔ لیکن سب سے پہلا اور بنیادی کردار گھر اور والدین کا ہے۔ والدین کے لیے اولاد صدقہ جاریہ کیوں کہی گئی ہے؟
جب آپ اپنے بچے کو کچھ اچھا سکھاتے ہیں اور وہ بچہ جب جب اچھا بولتا ہے، اچھا کرتا ہے اور برائی سے رکتا ہے تو آپ کا اس میں حصہ ہے۔ مرنے کے بعد بھی آپ تک خیر آتی رہتی ہے۔ لیکن اگر آپ سکھانے کے لیے وقت پر وقت نہ نکال سکے تو بچہ جب تک غلط کرے گا، گناہ اور جرم میں مبتلا ہو گا آپ نظر انداز کریں گے تو اس شر کی حدّت آپ کو بھی پہنچے گی۔ یہ سادہ سا فارمولا ہے۔ دنیا کے تمام کام ہم گھر، بچوں اور خوشی کے لیے کرتے ہیں۔ اگر وہیں ہم آگ جلتی چھوڑ دیں گے تو منطقی طور پر ہم بھی جلیں گے۔
اپنی جنگ صرف پیسے کا حصول مت بنا ئیے، اچھی کوشش کی کوشش کریں، نتیجہ ربّ سوہنے پر چھوڑ دیں، یہ سیاستدان، یہ وڈیرے، یہ مال و اسباب یہ سب نہ تو آپ کی دائمی خوشی کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی آپ کی اولاد کی تربیت کریں گے۔ اپنے بچوں کو صحیح، محفوظ، خوش اور صراطِ مستقیم پر رہنا سکھائیے، باقی سب خود ہی ہو جائے گا۔ اپنے بچوں پر توجہ دیں ان کی خاطر حرام مت کمائیں کیونکہ گناہ کی کونپل پر نیکی کا پھل نہیں لگتا۔ اپنی جنگ عقل مندی سے منتخب کریں۔