Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Lekin Kyun

Lekin Kyun

لیکن کیوں

سیاست دان ہر پانچ سال بعد عوام کے دکھ درد کو سمجھنے کیلئے ان کی دہلیز پر جاتے ہیں، ان سے وعدے کرتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہر قسم کا مکمل تعاون کریں گے اور آپ کے مسائل کو ہم حل کریں گے لیکن جیسے ہی وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں نہ ہی ان کو عوام یاد رہتی ہے اور نہ ہی ان کو اپنے وعدے۔

ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں لوگ بہت جلد سیاست دانوں کے بہکاوے میں آکر ان کو ووٹ دینے کیلئے خاندانی دشمنیوں کی شروعات کردیتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ معصوم لوگ سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو یا الیکشن لڑنے والا امیدوار کوئی بھی ہو جب تک وہ کامیاب نہیں ہوتا وہ عوام کا بہت بڑا ہمدرد ہے لیکن جیسے ہی وہ ایم این اے یا ایم پی اے بن جاتا ہے، وہ عوام سے دور ہوجاتا ہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ جب بھی انسان کوئی بڑا عہدہ حاصل کرلیتا ہے وہ عام عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگ جاتا ہے۔ وہ جن ٹی وی چینل اور شعبہ صحافت کے جید اور نامور صحافیوں کو حق اور سچ کی آواز بولتا ہے، اور ان کو صبح شام انٹرویوز دیتا ہے، اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے بعد انہی کا دشمن بن جاتا ہے۔

پاکستان میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں جن کا یہاں تزکرہ کرنا ضروری تو نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ جھوٹ بول کر اقتدار حاصل کرنے والے حکمران اور نالی اور گٹر بنوانے کیلئے غیر سنجیدہ لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے والی عوام، بھلا ملکی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں؟ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اپنی مرضی کے قوانین و ضوابط بنا رہے ہیں اور پھر ہم ان کی بھی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ہر روز یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ملک کے مسائل بہت ہیں، ہم بہت جلد ان مسائل پر قابو پا لیں گے لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں۔۔ بیس بیس سال اور پچیس پچیس سال تک قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے رکن رہنے والے اور پھر اعلیٰ عہدوں اور وزارت عظمیٰ بلکہ صدر مملکت کا منصب سنبھالنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم مسائل کا حل نکالیں گے۔۔ خدا کا خوف کیجیے حضور۔۔

ابھی تک آپ ان مسائل کا حل تلاش نہیں کرسکے بلکہ مذید تباہی کی طرف جارہے ہیں اور ہم ابھی بھی بےوقوف بن کر یہ امید لگائے بیٹھیں کہ مسائل ختم ہو جائیں گے؟ دکھ اور افسوس والی بات تو یہ ہے کہ عوام نے انہی لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر پہنچا دیا ہے جن کے خلاف کسی زمانے میں کرپشن کے کیس چلتے تھے اور ان کو سزا بھی ہونے والی تھی۔۔ غضب خدا کا، وہی لوگ اب ملک کے مسائل حل کریں گے اور ملک کی معیشت کو سنبھالیں گے، میں اکثر یہ بات کرتا ہوں کہ اگر امیر کی وہ دولت جو ایک بڑے پیمانے پر باہر کے بینکوں میں جمع ہے وہ اگر ملک میں صرف آدھی واپس آجائے تو پاکستان کے سارے قرض اور مسائل دور ہوجائیں گے۔۔ پھر نہ تو معیشت کو درست کرنے کیلئے قرضے لینے پڑیں گے، نہ ہی دیگر ممالک سے امداد لینا پڑے گی، نہ ہی غریب عوام پر ٹیکس لگانا پڑیں گے، جب ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے تو مہنگائی بہت حد تک کم ہوجائے گی۔

لیکن ایسا کیوں کر ہوگا؟ ایک بہت بڑے پیمانے پر اشرافیہ قابض ہے، ایسا ہونا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے، بس قرضے لیتے جائیں اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کا ڈھونگ رچانے کی اداکاری کرتے جائیں، پانچ سال عوام چیخیں مارے کوئی بات ہی نہیں بس یہی کرنا ہوتا ہے کہ ووٹ مانگنے کیلئے پچھلی والی حکومت کو چور اور ڈاکو ڈکلیئر کرنا ہوتا ہے پھر پانچ سال آپ کے پکے۔۔ اس نظام کو بدلنے کیلئے سچ لکھنے، سننے اور پڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا، آپ کسی کے نظریے سے اختلاف ضرور کرسکتے ہیں لیکن کسی کی رائے کو ختم نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے آپ جس زاویے سے اس کے نظریات کو دیکھ رہے ہوں، وہ شخص اس زاویے سے نا دیکھ رہا ہو۔ کاش۔۔ عوام یہ بات جان سکے کہ ہم زوال پزیر کیوں ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں اور ہم ان مسائل سے نکلنے کیلئے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar