Jab Haqaiq Maskh Kar Diye Jayen
جب حقائق مسخ کردیے جائیں
آج کا دور سائنسی ایجادات کے حوالے سے بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ نت نئی ایجادات نے انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے بے تحاشہ استعمال نے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا بہت ہی مشکل بنا دیا ہے۔ آج کے دور کو اگر گوئبلز کے دور سے تشبیہ دی جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ پروپیگنڈہ آج کے دور کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے، جس کی وجہ سے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا آسان نہیں رہا۔
اگر عصر حاضر میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً اس میں فرق کرنا بہت مشکل ہوگا کہ دو ہزار اٹھارہ سے پہلے حالات اچھے تھے یا اس کے بعد، یا پھر کورونا وائرس کے ایام میں پاکستان کی معیشت ترقی کررہی تھی یا پھر اس وقت آٹے اور کھاد کے حصول کیلئے لوگوں کی لائنیں لگی ہوتی تھیں۔
اگر آج ہم تقریباً سات سال پیچھے نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان، آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ چکا تھا، جس آئی ایم ایف سے آج ہم قرض لینے کیلئے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگا رہے ہیں، آئے دن بجلی مہنگی کررہے ہیں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کے مطالبے پر اضافہ کررہے ہیں۔ لیکن پھر کیا ہوتا ہے کہ جب حقائق مسخ کردیے جائیں تو ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کردیا جاتا ہے، اور ایک کھلاڑی، ریاست پر مسلط کر دیا جاتا ہے جو صرف اور صرف اپوزیشن کو ہی چور ڈاکو، چور ڈاکو کہتے ہوئے ملک کی معیشت کو زمیں بوس کردیتا ہے اور ہم پھر سے آئی ایم ایف کو السلام علیکم کہنے کی شروعات کردیتے ہیں۔
اس طرح حقائق بھی مسخ ہوتے رہتے ہیں اور وہ حکومت جسے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے نام سے جانا جاتا ہے وہ ہر پندرہ دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے لیکن ان کی پروپیگنڈہ مشینری عوام کو مایوس نہیں ہونے دیتی اور ان کی ذہن سازی کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ پچھلے والے چور اور ڈاکو تھے، اور لوگ تو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لوگ تین سو روپے لیٹر پیٹرول بھی خرید سکتے ہیں۔
دراصل اس وقت کے وزیر فیصل واوڈا نے آج کے دور میں پٹرول کی قیمت کی چار سال پہلے ہی پیشینگوئی کر دی تھی، موصوف یقیناً بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہیں۔ اُس وقت عوام پی ٹی آئی حکومت سے تنگ آجاتی ہے کیونکہ مہنگائی عوام کا کچومر نکال دیتی ہے، اُس وقت کی اپوزیشن اس موقع کا فائدہ اٹھا کر تحریک عدم اعتماد کا کارڈ کھیلتی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف صاحب مخلوط حکومت کے وزیر اعظم بنتے ہیں۔
لیکن جب حقائق مسخ کردیے جائیں تو یہ تحریک عدم اعتماد پی ڈی ایم کی سیاست کو ختم کرنے کا موجب بھی بن جاتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے تحت وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے والے عمران احمد خان نیازی امریکی سازش کا بیانیہ بنا کر ایک بار پھر عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ سب پروپیگنڈہ ہوتا ہے جو رائے عامہ کو خان صاحب کی حمایت کروانے پر مجبور کردیتا ہے۔ موصوف ایک بار پھر سے حکمرانی کے خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں اور امریکی سازش میں ملوث کرداروں کے خلاف اٹھنے کیلئے لوگوں سے حلف لینے لگ جاتے ہیں، اپنے خطابات میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا اعلان کردیتے ہیں۔ جب موصوف ایک کیس کے سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نو مئی رونما ہوجاتا ہے، پورے ملک میں ہنگامے اور جناح ہاؤس سمیت کور کمانڈر آفس جلادیے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ورکرز ریڈیو پاکستان پشاور کے آفس کو جلا دیتے ہیں لیکن پھر جب حقائق مسخ کردیے جاتے ہیں تو ان ہنگاموں کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر لگ جاتا ہے۔ عوام ایک بار پھر سے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اپنی ہی فوج کے خلاف ہوجاتی ہے۔ یہ ہوتا ہے حقائق کو مسخ کرنے کا نتیجہ کہ آپ پروپیگنڈے کی زد میں آکر سچ اور حقائق جاننے کی طاقت کھو بیٹھتے ہیں۔ آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کے الیکشن میں بھی پروپیگنڈے نے بھرپور حقائق مسخ کیے۔ دس یا پندرہ فیصد رزلٹ کی بنیاد پر امیدواروں کی جیت کی خوشخبریاں سنانے والوں نے الیکشنز کو اس قدر مشکوک بنا دیا کہ آج ہر شخص اس حکومت کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب حالات ایسے ہوں تو بھلا ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کیسے آسکتا ہے؟
جب عوام کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ ان کا وزیراعظم دھاندلی سے آیا ہے یا شفاف طریقے سے تو اس وقت تک عوام کھلے دل سے حکومت وقت کے ساتھ کیسے تعاون کرسکتی ہے؟ جب تک حقائق کو مسخ کیا جاتا رہے گا ہم آئے روز مہنگائی، بےروزگاری، اور غربت کی چکی میں پستے جائیں گے، ہم اسی طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی امداد کے محتاج ہی رہیں گے۔۔ حقائق جو بھی ہوں، عوام کے سامنے ضرور آنے چاہئیں تاکہ ہم اس گول چکر سے نکل سکیں اور ہم بھی اپنے آپ کو خوشحال اور ترقی یافتہ قوم کہلانے کے قابل ہو سکیں۔
کاش! وہ وقت آئے۔۔