Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Hamare Hain Hussain

Hamare Hain Hussain

ہمارے ہیں حسین علیہ السلام

اسلامی تاریخ میں خیر و شر، حق و باطل، رُشد و گمراہی، اور اسلام و کفر کے مابین ہونے والے سینکڑوں واقعات کا تزکرہ ملتا ہے۔ اور ایسے واقعات قیامت تک کیلئے ہوتے رہیں گے۔ اسلام اور کفر کے مابین ہونے والے غزوات میں لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔

تاہم یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ جس طرح شہزادۂ بتولؑ، نواسۂ رسول ﷺ سیدنا امام حسینؑ کی شہادت کو جس قدر قبولیت اور عالمگیریت تزکرہ نصیب ہوا کسی اور شہادت کو میسر نہیں ہوا۔ شہادت اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک عظیم المرتبت نعمت ہے۔ جن کو شہادت جیسی عظیم نعمت میسر آتی ہے اللہ رب العزت ان انعام یافتہ بندوں کا ذکر قرآن پاک میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔

"جو کوئی اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے۔ پس وہی ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔ جو کہ انبیاء، صدیقین شہداء اور صالحین ہیں۔ " (سورۃ النساء:69)

عجیب حسن اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے سال ہجری کا آغاز بھی قربانی سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا بھی قربانی پر۔ جی ہاں محرم کی دس تاریخ کو امام حسینؑ اپنی اور اپنے پاک گھرانے کے سروں کی قربانیاں اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔ اور پھر حضرت ابراہیمؑ سال کے آخری مہینے کی اسی دس تاریخ کو اپنے بیٹے اسماعیلؑ کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا فرماتے ہیں۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم

نہایت اسکی حسینؑ ابتداء ہے اسماعیلؑ

سچ تو یہ ہے کہ داستان حرم واقعی بہت رنگین ہے عام سادہ رنگ سے نہیں خون کے سرخ رنگ سے اور پھر انسانی تاریخ بے شمار قوموں اور انگنت حادثوں سے بھری پڑی ہے۔ واقعہ کربلا بھی انہی حادثوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس سانحہ کی نوعیت دوسرے سانحات سے بلکل مختلف ہے۔ دوسرے حادثات اور واقعات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سنگینی، شدت، احساس اور جذبات کھو دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکی ہولناکی لرزہ خیزی انسانی ذہن سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے۔ لیکن واقعہ کربلا شاید دنیا کا وہ پہلا اور آخری واقعہ ہے جسکی تاثیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ ابھرتی اور نکھرتی گئی۔ کیوں؟ وہ اس لئے کہ اس واقعے کی تہہ میں وہ سچائی ہے وہ صداقت ہے جو کبھی بھی پرانی نہیں ہوتی۔ جی ہاں حق جسکا نام ہے وہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ ایک شاعر نے اس حقیقت کو اپنے ایک سادہ سے شعر سے یوں سمیٹا کہ

جب خیر و شر میں تفریق ہوگئی

بے ساختہ حسینؑ کی تخلیق ہوگئی

حضرت امام حسینؑ کی جرأت و ہمت نے ثابت نہیں کیا بلکہ ہر ذی شعور انسان کیلئے عیاں کر دیا کہ با خدا حسینؑ ایک ہی ہے۔ حضرت امام حسینؑ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا خون تھے۔ وہ آل رسول ﷺ تھے۔ وہ کسی صورت غلط نہیں ہوسکتے تھے۔ ہر گز نہیں۔ ان کا یزیدی قوت سے ٹکرانے کا مقصد نہ حصول اقتدار تھا نہ یزید سے ذاتی رقابت بلکہ نواسہ رسول ﷺ خون بتولؑ کا مقصد فقط دستور اسلامی کا تحفظ تھا۔ ان تغیرات و تبدیلیوں کے خلاف بند باندھنا تھا جو اسلامی اقدار و روایات کو پامال کر رہی تھیں۔ تہذیب اسلامی کو مسخ کر رہی تھیں۔ اصولِ رسول ﷺ کو روندھ رہی تھیں۔

اس نقطہ نظر پر غور کریں اور سوچیں کہ امام حسینؑ جیسی عظیم شخصیت کا یزید جیسے شیطان صفت انسان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطلب آخر کیا تھا۔ یہی ناکہ نیکی و شرافت نے بدی و شرارت کے آگے سپر ڈال دی۔ اسلام نے کفر کے ساتھ یا حق نے باطل کے ہاتھ بقائے باہمی یا امن و سلامتی کا سمجھوتہ کر لیا۔ اگر امام حسینؑ بیعت کر لیتے تو کیا انسانی تاریخ میں یہ باطل نظریہ ہمیشہ کے لئے جڑ نہ پکڑ لیتا کہ شر اگر طاقت پکڑ لے۔ دھونس اور دھاندلی اگر زور آور ہو جائے تو پھر حق و صداقت منہ چھپا کر بیٹھ جائے۔ باطل کے سامنے حق بلکل نہ آئے۔ کیا اسلام کی روح اسطرح کی بزدلی و بے غیرتی گوارہ کر سکتی ہے؟ نہیں۔۔ بلکل نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نواسہ رسول ﷺ اگر یزید کی بیعت کر لیتے تو کیا تاریخ اسلام کا دامن رہتی دنیا تک داغدار نہ ہو جاتا۔

یزید کی بیعت کے بعد یہ اصول یہ ضابطہ ایک سند کی حیثیت اختیار نہ کر لیتا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بجائے اس کیساتھ بقائے باہمی کا سمجھوتہ کر لیا جائے۔ ہمیں اپنے امامؑ پر فخر اور ناز ہے کہ آپ نے اسلام کے دامن سے اس داغ اور دھبے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دھو دیا۔ آفریں ہے حسینؑ تیری عظمت کردار کو، سلام ہے کہ تو نے اپنے مقدس خون کی قربانی دیکر اسلام کی تابناک تاریخ کو اس الزام سے بچا لیا۔ امام برحق نے ایک موقع پر یہ کہا تھا کہ "اگر میں یزید کی بیعت کر لیتا اس ظلم و نا انصافی کے آگے سر جھکا لیتا تو اس کے بعد بیشک میری بے آرام و بے چین زندگی کو آرام مل جاتا۔ میرا سالانہ وظیفہ بڑھ جاتا لیکن میری یہ چند روزہ آسائش اسلام کے خوبصورت دامن کو ہمیشہ کیلئے داغدار بنا جاتی"۔

بس یہی تھا شہادت حسینؑ کا مقصد۔ یہی درس حریت یہی دولت غیرت۔ امام حسینؑ کے پاک خون نے ثابت کر دیا کہ میرا خون میرے نانے کا ہی خون ہے۔ کیونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔

دنیاوی زندگی تو محض مستعار ہے جو رہتی دنیا تک اہل حق کیلئے روشنی کا مینار بن کر جلوہ گر ہے۔ آسائش و آسودگی کے سارے سامان جب مریں گے تو یہاں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ لہذا عقلمندی یہ نہیں کہ محض چند روزہ دنیوی زندگی کی عارضی آسائشوں پہ عاقبت کیدائمی فلاح و نجات پر ضائع کر دی جائے۔

جس طرح میں نے کالم کے آغاز میں لکھا کہ تاریخ اسلام میں اور بھی بہت سی شہادتیں ہوئیں ہیں۔ اور ہر شہارت کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے مگر شہادت حسینؑ کی دوسری شہادتوں کے مقابلے میں اہمیت اور اطراف و اکناف عالم میں اس کی شہرت دوسری سب شہادتوں سے بڑھ کر اس لئے ہے کہ اس میں شہید ہونے والوں کی حضور ﷺ سے خاص نسبتیں ہیں۔ پھر یہ کہ یہ داستان شہادت گلشن نبوت ﷺ کے کسی ایک پھول پر مشتمل نہیں بلکہ یہ سارے کے سارے گلشن کی قربانی ہے۔ باقی واقعات شہادت ایک دو تین یا چار نفوس کی شہادت پر مشتمل ہیں مگر واقعہ کربلا گلشن نبوت کے بیسیوں پھولوں کے مسلے جانے کی داستان غم ہے۔ لہذا تاریخ کے کسی بھی دور میں امت مسلمہ واقعہ کربلا، اس کی تفصیلات اور اس کی اہمیت کو فراموش نہیں کر سکتی۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں۔

عجب لڑی ہے جنگ بھی

حسینؑ نے یزید سے

ہو اس سے بڑھ کر جیت کیا؟

یزید تھا حسینؑ ہے

Check Also

Shaitan Ke Agent

By Javed Chaudhry