Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Ali Shmmas/
  4. Asli Azadi To Hume Tab Mile Gi

Asli Azadi To Hume Tab Mile Gi

اصلی آزادی تو ہمیں تب ملے گی

قوم کی تاریخ کی پہچان ہے چودہ اگست

ایک زریں باب کا عنوان ہے چودہ اگست

چودہ اگست کا مبارک، پُر مسرت، اور ولولہ انگیز دن ہماری ملی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے کہ اس کی صبح سعادت کے طلوع آفتاب نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو آزادی جیسی نعمت کے پیامِ حیات کا نغمہ سنایا۔ جس سے ہر قلب پریشان کی کلیاں کِھل اٹھیں۔ اور بے چین روحوں کو سکون و قرار کی دولت نصیب ہوئی۔ سکون و قرار کی دولت نصیب کیوں نہ ہوتی کیونکہ آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اور غلامی دنیا کی سب سے بڑی لعنت ہے۔

آزادی کی زندگی کا ایک سانس غلامی کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، غلامی لعنت کا ایک طوق ہے جبکہ آزادی خدا کی رحمت کا ایک ہار۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر سال اسی روز کی یاد میں سکولوں، بازاروں، کھیتوں، کھلیانوں، وادیوں، کہساروں میں شادمانی کے شادیانے بجاتے اور مسرت کے گیت گاتے ہیں۔ کیونکہ یہ سرزمین کسی حادثاتی انقلاب یا کسی بادشاہ کی سخاوت کے طفیل نہیں بلکہ مسلسل جدوجہد، قربانیوں، اور اپنے آباؤ اجداد کا لہو بہانے کے بعد حاصل کی ہے۔

اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ آزادی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جبکہ غلامی حسن و زیبائی سے محرومی کا نام ہے۔ غلامی ذہنی صلاحیتوں کی زنگ آلودگی کو کہتے ہیں۔ غلامی ضمیر کی پژمردگی کو کہتے ہیں۔ غلامی اپنی انا کو فنا کے گھاٹ اتارنے کا نام ہے۔ غلامی انسانیت کی ذلت اور نامرادی کا اعلان ہے۔ غلامی روزِ روشن میں شب تاریک کا تسلط ہے۔ غلامی نوع انسان کو ڈنگروں اور ڈھوروں کی صورت میں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔

غلامی دوسروں کی خوشی کیلئے اپنی مسرتیں پامال کرنے کی رسم قدیم ہے۔ اور غلامی آقاؤں کی خوشنودی اور اپنی خودکشی کی مزموم حرکت ہے۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا۔

"غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں"۔

یہ بات تو درست ہے کہ ہم آزاد ہیں اور ہم دھوم دھام سے آزادی کا روکھا سوکھا جشن تو مناتے ہیں۔ لیکن اب ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں کہ ہم نے اس آزاد وطن کی کتنی قدر کی۔ مانا کہ ہم نعرے بھی لگاتے ہیں اور ریلیاں بھی نکالتے ہیں۔ تقریریں بھی کرتے ہیں اور تحریریں بھی لکھتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس آزاد وطن کا کیا حال کر دیا۔

معزز قارئین، یہ وطن عزیز تیئس مارچ انیس سو چالیس کی عہد ساز قرار داد پاکستان کی عملی تعبیر بن کر چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ جس کی نظریاتی اساس اسلام کے اصولوں کی پابندی اور تشخص کی بلندی تھی۔ ہم نے قائد کی زیر قیادت علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کا سفر شروع کیا لیکن قائد کی ناگہانی موت کے بعد ہم اپنے مشن اور منشور سے ہٹتے چلے گئے۔ سیاست اور جمہوریت کے نام پر بٹتے چلے گئے۔

ملکی وقار اور معاشی استحکام کی بجائے ہم تنزلی کا شکار ہوتے گئے۔ قومی سوچ کی بجائے صوبائی اور مذہبی تعصب نے جنم لے لیا۔ پاکستان عالم اسلام کی عظمت اور اتحاد کا ضامن تھا مگر اسے عالمی بازی گروں نے دہشت و وہشت کا نشانہ بنا ڈالا۔ ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر ڈالا۔ انیس سو اکہتر کو وطن عزیز کے جسم کو لہو لہان کر دیا گیا۔ یہ رویے پاکستان اور پاکستان کی عوام کے خلاف ایسی سازشیں تھیں جو عالمی طاقتوں کے ایجنٹس کی وساطت سے اسلامی ممالک کے اتحاد کو روکنے اور پاکستان کو معاشی زبوں حالی کا نشانہ بنانے کی سازش تھی۔

کبھی دشمن کا کسی بھی وقت حملہ کرنا، کبھی آمریت، کبھی جمہوریت کو خطرہ، کبھی دہشت گردی، کبھی احتجاج اور دھرنے، کبھی کرپشن کا راگ، اور کبھی بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ۔ یہ سب پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے والے عوامل تھے۔ اور اس طرح دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت اپنوں اور بیگانوں کی بے اعتنائیوں کا شکار ہوتی گئی اور زوال پزیر ہو گئی۔

یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہم نے بلکہ "ہم نے" کیا ہوتا ہے؟ ہمارے اسلاف نے کتنی جدوجہد اور بے نظیر قربانیوں کے بعد اس وطن کو حاصل کیا تھا۔ کس طرح مسلمانوں کو آگ اور لہو کے دریا عبور کرنا پڑے تھے۔ مسلمانوں کے خون سے کس طرح ہولی کھیلی گئی۔ ماؤں کی گود سے نومولود چھین کر کس طرح نیزوں پر اچھال دیے گئے۔ کتنی بہنوں اور بیٹیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

کتنی ماؤں کی بانہوں کی ٹہنیاں ٹوٹیں۔ کتنے ہونٹوں کے رنگ خاک ہوئے۔ لیکن آج وہ سب واقعات ہم بھول گئے۔ ہم سب کچھ بھول گئے۔ بلکہ ہم یاداشت کھو بیٹھے۔ ہمارا جغرافیہ، ہماری شناخت، ہمارا تشخص سب کچھ مسخ ہو گیا۔ ہمارے رویے، ہمارے انداز سب کچھ بدل گئے۔ تاریخ ان سب سانحات اور واقعات کا حساب رکھتی ہے۔

یہ میڈیا کا ہی کمال ہے کہ وہ ہمیں ہر سال چودہ اگست کا یاد دلا دیتا ہے کہ آج چودہ اگست ہے۔ نہیں تو ہم بھول چکے ہیں کہ ہم یہ سبز حلالی پرچم ہاتھ میں کیوں تھامتے ہیں؟ وقتی طور پر ہم نعرے لگانے کے ماہر ہیں۔ آج "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہٰ الا للہ" کے نعرے کو ہوا ہوئے عرصہ ہو گیا ہے۔ "جیوے پاکستان" کا راگ الاپنے والے کب کے قبروں میں جا کر سو گئے ہیں۔

"سوہنی دھرتی تجھے اللہ رکھے" کہنے والے اب شاید پاتال میں ملیں تو ملیں۔ "پاک سر زمین شاد باد" کا ترانہ یاد رکھنے والا اب شاید ہزاروں میں ایک ہو گا۔ کیونکہ ہماری مفاد پرست ذہنیت، مذہبی اور صوبائی تعصب سے لپٹی سوچ نے اس ملک کی جڑوں کو اس قدر کھوکھلا کر دیا ہے کہ "پاکستان زندہ باد" کہنے والوں کو لوگ بے یقینی کی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ ہم قائداعظم کے اقوال کو بھول گئے۔ اکیس مارچ انیس سو اڑتالیس کو قائد نے ڈھاکہ میں خطاب کے دوران فرمایا تھا۔

"آپ بنگالی، سندھی، بلوچی، اور پٹھان کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ بلکہ آپ تیرہ سو سال پہلے کا وہ سبق یاد کریں کہ ہم سندھی، بلوچی، یا پٹھان نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمان ہیں"۔

ہماری منزل تو یہ تھی لیکن آج ہم سندھو دیش۔ پختونستان۔ جاگ پنجابی جاگ۔ اور خوشحال بلوچستان کے نعرے لگا لگا کر ایک ملک کو تقسیم کرنے میں مگن ہیں۔ کیونکہ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمارا دل نہیں بھرا۔ یہ شعر میں بڑے دکھ کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔

پھولوں کو آگ لگ گئی نغمات جل گئے

سورج کی تیز دھوپ میں لمحات جل گئے

اب دامن حیات میں کچھ بھی نہیں رہا

فردا کی سرد آگ میں حالات جل گئے

آج ہم تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں وہ بڑا نازک اور کٹھن ہے۔ آج اس عہد مصمم کو دہرانے بلکہ عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اب وطن عزیز کی سلامتی اور دین اسلام کی سر بلندی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ جذباتی نعروں کی بجائے کچھ عملی طور پر کر جائیں۔ ایک بار متحد ہو جائیں۔ ایک دیوار بن جائیں۔ جس میں وحدت نہ ہونے کا شبہ تک نہ ہو۔

اتنے سال ہو گئے پاکستان کو معرض وجود میں آئے۔ لیکن آج بھی ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، بھوک، اور افلاس سے آج بھی لوگ مر رہے ہیں۔ تھر کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ یہ وقت نعرے لگانے کا نہیں عملی طور پر ملک سنوارنے کا ہے۔ سچ کی تلاش کا نہیں، سچ بولنے کا ہے۔ جھنڈے اٹھانے کا نہیں، جھنڈے کی عظمت کو پامال ہونے سے بچانے کا ہے۔ یہ وقت جیوے پاکستان کے الفاظ پکارنے کا نہیں بلکہ اس ملک میں غریب کو جینے کا حق دینے کا ہے۔

اور یہ وقت آزادی کی خوشیاں منانے کا نہیں بلکہ اب تک ہماری ناکامی اور ترقی نہ ہونے کی وجوہات کو تلاش کرنے کا ہے۔ تاکہ کوئی ہم سے یہ سوال نہ کر سکے کہ ہم کس کا جشن منا رہے ہیں؟ یقین مانیں اس مبارک، پر مسرت، اور ولولہ انگیز دن کی حقیقی خوشی تب ہو گی جب ہم اپنے دل اور دماغ کو وطن کی ترقی کیلئے مرکوز کریں گے۔ اور اس سر زمین کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔

صرف چودہ اگست کو جشن آزادی منا کر آزادی کے مقصد کو پورا نہیں کیا جا سکتا، اصلی آزادی تو ہمیں تب ملے گی جب ہم مہنگائی، بیروزگاری، غربت و افلاس اور کرپشن کے خلاف جنگ جیتیں گے تب ہی ہم آزاد ہوں گے، جب وہ دن آئے گا پاکستان ایک مضبوط ترین ملک بن جائے گا بلکہ پاکستان کے سارے قرض دور ہو جائیں گے۔ جب تک ہم ایسا نہیں کر پاتے ہم غلام ہی رہیں گے۔ ایک غلام اور ذہنی طور پر مفلوج قوم۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ نعرے لگانا سب سے آسان کام ہے اور عملی طور پر کام کرنا بہت مشکل ہے۔

Check Also

Mein Aap Ka Fan Hoon

By Rauf Klasra