Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Payar Nahi Ab Maar

Payar Nahi Ab Maar

پیار نہیں اب مار

محبت کی زبان بہت خوبصورت اور میٹھی ہوتی ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنی میٹھی زبان اور عمدہ رویے اور اللہ کے فضل سے کافروں کے دلوں کو بدل دیا تھا۔ مگر ایک بات قابل غور ہے کہ جن کو ہدایت نہیں ملنی تھی اور جن کے دلوں پر کفر و شرک کے تالے لگے تھے۔ انہیں نہیں ملی۔ نبی ﷺ کو اپنے سامنے دیکھ کر بھی ہدایت نہیں ملی۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ اپنی ذات پر ہونے والا ہر ظلم معاف فرما دیتے تھے۔ مگر اسلام کی بقا کے لیے کی گئی جنگوں میں ان کا جذبہ عروج پر ہوتا تھا۔ سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ کافروں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے آپ پھلدار اور ہرے بھرے چھاؤں دینے والے درختوں کو کا ٹنے سے منع فرماتے۔ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی بھی ممانعت تھی۔ مگر دوسری طرف بھرپور جذبے کے ساتھ جنگ بھی لڑی جاتی اور دشمنوں کو نیست و نابود کر دیا جاتا۔

یہی توازن دین اسلام کی خوبصورتی ہے۔

پاکستانی معاشرے کو دیکھ لیں۔ ہمارے والدین ہمارے لاڈ بھی اٹھاتے تھے اور غلطی ہونے پر خاطر تواضع بھی کی جاتی تھی۔ اور اس طرح طبیعتوں میں توازن برقرار رہتا تھا۔ ہمارے پیارے ملک پاکستان کے حالات آج کل کچھ عجیب ہیں۔ بچے بہت بدتمیز ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسروں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔ اسٹابریز اور قورمہ تک چوری کر لیتے ہیں۔ کچھ ناہنجار تو کپڑے اٹھا کر بھی بھاگ جاتے ہیں۔ ایک معصوم شرارتی بچہ گھر کا پالتو مور ہی اٹھا کر بھاگ گیا۔ کچھ نے کھلونا جہاز کو آگ لگا دی۔ کچھ نے کھلونا ایمبولینس اور گاڑیوں کو توڑ دیا۔

کچھ شرارتیوں نے درختوں کو آگ لگا کر مچھر بھگانے کی کوشش کی۔ غرض معصوموں کا جو دل چاہا انہوں نے کیا۔ کیوں کہ گھر کے بڑے گہری نیند سو رہے تھے۔ انہیں تو جاگنے کے بعد معلوم ہوا کہ معصوم بچے کیا شرارتیں کرتے رہے۔ اب گہری نیند سے جاگنے کے بعد گھر کے بڑوں نے معصوم بچوں کو پکڑ لیا۔ اس سے پہلے انہیں تھپڑ پڑتا بچوں نے معافی مانگنی شروع کر دی۔ بڑوں کا دل پسیج گیا انہوں نے کندھے تھپتھپا کر سب کو معاف کر دیا۔ بس اتنی سی بات ہے۔ مگر کاش یہ اتنی سی ہی بات ہوتی۔

ہم کیسے بھول جائیں کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ پودے لیونگ تھنگز میں شمار ہوتے ہیں۔ تو کیا ہم درختوں کے قاتلوں کو معاف کر دیں گے؟ ہمارے دلوں میں آرمی کی جو عزت اور محبت تھی کیا اس میں شک کی تلخ آمیزش نہیں ہو گئ؟ ہماری آرمی سرحدوں پر ہماری حفاظت کر رہی ہے۔ یہ خیال کتنا مضبوط تھا۔ دل میں وسوسہ آتا ہے جو اپنے گھر کی حفاظت نہ کر سکے ہمیں کیا بچائیں گے؟ کیا کوئی شخص دس بیس بندے لے کر آئے اور جو دل چاہے وہ کرے اور اسے کوئی روکنے والا نہ ہو۔

اوپر سے نہ جانے کون سے دانشور پیار سے سمجھانے کے مشورے دے رہے ہیں۔ بیٹا باپ کا گریبان پکڑ لے تو باپ پیار سے نہیں سمجھاتا بلکہ زناٹے دار تھپڑ منہ پر رسید کرتا ہے اور یہی توازن ہے۔ مجرموں کو سزا دی جاتی ہے انہیں گڈ ٹو سی یو نہیں کہا جاتا۔ انہیں مرسڈیز نہیں دی جاتی۔ ایوان صدر سے مٹن قورمے نہیں بن کر آتے۔ تو پھر مجرم چوڑا ہو کر گالیاں کیوں نہ بکے۔ قہقہے کیوں نہ لگائے اور ہم عام عوام کو کیوں نہ بتائیں کہ تم لوگ کیڑے مکوڑے ہو اور میں طاقتور ہوں۔ قانون میرے گھر کی باندی ہے۔

ریاست مدینہ میں تو حضرت فاطمہؓ کے لئے جو قانون تھا وہی عام عورت کے لئے بھی تھا۔ نعوذباللہ من ذالک کسی جادو ٹونے کرنے والی مشرک عورت کی توقیر نبی کی بیٹی سے بڑھ کر ہے؟ ساٹھ ارب کی چوری کے مجرم کو مرسڈیز دی جائے۔ اور کھانا چرانے والے کو تھپڑوں کی برسات میں تھانے میں بند کر دیا جائے۔ آخر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم مسلمان ہیں؟ ہمارے اخلاقی معیار کیا ہیں؟ کیا یہ ملک صرف طاقتور کا ہے؟ کیا قانون اشرافیہ کے گھر کی باندی ہے؟

نعوذباللہ کیا قیامت، قبر کا حساب روز حشر کی سختیاں سب بھول چکے ہیں یا ہمیں بتایا ہی نہیں گیا ہےکہ آپ نے مرنا بھی ہے اور اللہ کے سامنے بھی جانا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس ملک میں عام آدمی کا دم گھٹ جائے گا۔ اس کا دل چھلنی ہو جائے گا۔ کون ہے ان باتوں کا ذمہ دار؟ سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla