Mojzat Ke Option Mojood Rehte Hain
معجزات کے آ پشن موجود رہتے ہیں
بانی تحریک انصاف پاکستان کے وہ خوش قسمت انسان ہیں۔ جنھیں عوام کی بے لوث محبت سیاست میں آنے سے پہلے ملی۔ صرف عوام نہیں بلکہ خواص اور صاحب اقتدار کے بھی پسندیدہ تھے۔ کرکٹ سے شوکت خانم میموریل ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تک کا سفر دیکھ لیں۔ عام عوام سے لے کر خواص تک ہر کوئی انھیں چاہتا تھا اور ان کی مالی مدد بھی کر تا تھا۔ ہو سکتا ہے آپ لوگوں کو لفظ"تھا" پر اعتراض ہو، مگر آج کی تحریر "تھا اور ہے" کے درمیان چکر کاٹے گی۔
دوبارہ واپس آتے ہیں۔ میں نے شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ اپنی آنکھوں سے دیکھی، بلکہ دوران کالج اس عمل میں بذات خود حصہ بھی لیا۔ بانی تحریک انصاف جب فنڈ ریزنگ کے لیے باہر نکلتے تھے تو خواتین اپنے زیورات اتار کر انھیں پکڑا رہی ہوتی تھیں۔
ان کی مقبولیت اور عام عوام کی محبت سے سیاستدان بھی گھبرانے لگے تھے۔ عقلمند سیاست دانوں نے اس فنڈ ریزنگ کے عمل میں ان کی مدد کرنا شروع کر دی اور انھیں سیاست کی پر خار وادی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔
یہاں تک تو سب ٹھیک چل رہا تھا۔ مگر کیا کریں جب آپ گاڑی کی چھت کا شیشہ کھول کر کھڑے ہوں، آپ کے ارد گرد چند ہزار لوگوں کا ہجوم دیوانہ وار بڑھ رہا ہو۔ آپ پر گلاب کی سرخ پتیاں پھینکی جا رہی ہوں۔ لوگ آپ کو سننا، دیکھنا اور شاید چھونا بھی چاہتے ہو، تو انسان کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔
اس لت میں مبتلا ہونے والے مرنے کے بعد ہی اس کے مضر اثرات سے چھٹکارا پاتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کسی کی زندگی کو مشکلات میں ڈالنا ہو، اس کی عزت ختم کرنی ہو، اس میں جھوٹ جیسی تباہ کن اخلاقی برائی پیدا کرنی ہو تو اسے پاکستان کا سیاست دان بنا دیں۔
بانی نے بھی اپنی سالوں سے کمائی محبت اور شہرت کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا اور عملی سیاست میں قدم رکھ دیا۔ کھلاڑی تھا چوکے چھکے لگانے کا عادی تھا، سو زندگی کی آخری دہائی میں شاندار اننگز کھیلنے کی آرزو میں ایک انتہائی غلط فیصلہ کیا۔
یہ فیصلہ مزید غلط تب ہوا جب خود وزیراعظم بن گئے۔ جس شخص نے کبھی کسی چھوٹے سے ادارے میں نوکری نہیں کی، اس سے ملک کا انتظام بہتر طریقے سے چلانے کے خواہشمند حضرات کی عقلوں پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
بانی تحریک انصاف کی غلطیوں کی طویل فہرست کا آغاز وزیر اعظم کی بے وفا مسند پر بیٹھنے کے بعد شروع ہوگیا۔ لیکن کھلاڑی تھا، ہار نہیں مانی، نا ہی میدان چھوڑنے پر راضی ہوا۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف شعبوں میں کامیاب انسان، ذاتی زندگیوں میں ناکام ہوتے ہیں۔ ان میں رشتے نبھانے کی صلاحیت کم ہو تی ہے۔ شاید خوش قسمتی اور بد قسمتی کا یہی توازن انسان کو اپنے خالق کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور اسے یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ تم مکمل نہیں۔ بلکہ خوبیوں اور خامیوں کے توازن سے بنی ایک عام شخصیت ہو۔
بانی تحریک انصاف ذاتی رشتوں کے معاملےمیں ایسے ہی بدقسمت انسان ہیں۔ اس کے بارے میں کیا بات کریں کہ سب، سب کچھ جانتے ہیں۔
پاکستانی سیاست دان پر فرض ہے کہ انھیں اپنے غلط فیصلوں کے نتائج بھگتنے کے لیے جیل یاترا کرنی پڑتی ہے۔ اس جیل یاترا کے بعد یہ کندن بن جاتے ہیں۔ بلکہ کچھ تو پارس بھی بن جاتے ہیں۔ مگر"انسان" کم ہی بنتے ہیں۔
پے درپے غلط فیصلوں کے نتائج بھگتنے کیلیے ہر سیاست دان جیل کی کال کوٹھری کے لیے تیار رہتا ہے۔ بانی تحریک انصاف تیار تو تھے مگر اپنی ٹرمز اینڈ کنڈیشن پر۔ مگر آخر کب تک؟ اصل مسئلہ یہی ہے۔
خود کو ناگزیر عقلمند سمجھنے والا انسان اکثر چھوٹی سی مگر سنگین غلط حرکت کر جاتا ہے۔ نو مئی کا سانحہ ایسی ہی سنگین غلطی تھی۔
ایک اسٹار کھلاڑی غلط گیند کروا کر دوبارہ موقع لے سکتا ہے۔ مگر سیاست دان ملک کے کسی ایسے مسئلے پر اٹھا ہوا قدم دوبارہ نہیں پلٹ سکتا۔ اسے نقصان کی ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ انانیت اور ضد سے بھرا انسان تو پاکستان کی سیاست میں بالکل ہی ناکام ہے۔
غلط فیصلوں پر لچک دکھا کر معافی مانگنا اور تائب ہونا پڑتا ہے۔ یہی اصول ہیں۔ خود سری، ہٹ دھرمی خود کو عقل کل سمجھنا یہ عادتیں سیاستدانوں کو سوٹ نہیں کرتیں۔
بانی تحریک انصاف بہت کچھ اپنے ہاتھوں سے بگاڑ چکے ہیں۔ رہی سہی کسر بشریٰ بی بی کی طفلانہ حرکتوں نے پوری کر دی۔ پھر بھی معجزات کا آپشن موجود ہے۔ لیکن یہ وہ معجزات ہیں، جن میں تھوڑا جھک کر عقل سے کام لینا پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کو عقل عطا فرمائے آمین۔