Falsafa Aik Taqat
فلسفہ ایک طاقت
فرینچ سائنٹسٹ اور فلاسفر Rene Descartes کہتا ہے کہ "ذہن انسانوں میں سب سے خوبصورت تقسیم ہے"۔ حقیقت میں یہ ایک ایسا اظہار ہے جو ہمیں اندازہ دیتا ہے کہ بحث میں ہم مختلف موضوعات پر کس طرح بات کر سکتے ہیں طنزیہ غصے میں سیکھنے کے لیے، اکثر جب ہم سوشل میڈیا پر کچھ پڑھتے ہیں تو ہمیں غصہ اتا ہے ہم اسے پسند نہیں کرتے، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسی فضول باتیں چھوڑ دی جائیں ایسی باتیں کی جائیں جو صرف فائدہ مند ہوں، لیکن انسانی فکر تو سوال کرنا سکھاتی ہے، حالانکہ جب ایسے سوال کیا جائے تو کچھ لوگوں کے نزدیک فلسفہ ہے اور فلسفے نے ہمیشہ سے ہی دنیا میں اپنے دشمن پیدا کیے ہیں، انسانی فکر یونانی شہر ایتھنز میں ابتدائی طور پر پختہ ہوئی تھی، ذہن ایک طاقتور قوت تھی جس نے ہتھیاروں، تشدد اور جنگ کی طاقت کا مقابلہ کیا۔ وقت کی چکی کے ساتھ، سپارٹا کا ہتھیار غائب ہوگیا، اور ایتھنز کے ذہن کا ہتھیار رہ گیا، انسانی سوچ کی طاقت کو حرکت دیتا رہا۔ لیکن آج تک، ہم سپارٹا اور ایتھنز کے درمیان رہتے ہیں۔
ارسطو ایک ذہن اور سائل تھا، اس نے سوچا، پڑھا اور لکھا۔ ہر وہ چیز جو اس کے وقت میں موجود تھی، وہ سب اس کے سر میں سوالات کی لکیریں تھیں۔ سقراط کو اولمپس کے پہاڑوں پر حملہ کرنے کے الزام میں جان دینی پڑی۔ وقت کی وسعتوں میں ہر قدم یا چھلانگ پر ایسے عجیب سوالات جنم لیتے ہیں جو کبھی بھی اطمینان نہیں ہوتے۔ انسان کا ہر عمل ذہن سے پیدا ہوتا ہے، یعنی سوچ کی پیداوار ہے اور ہر سوچ فلسفیانہ تخلیق ہے۔
یورپی اور عرب مسلمانوں کو ابتدائی طور پر یونانی فلسفے کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ لیکن کیتھولک چرچ نے ابتدائی طور پر فلسفے کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ ان کے علماء نے نصوص میں بیان کردہ باتوں پر عمل کیا، اور زندگی کی تبدیلیوں کے حوالے سے تمام فکری کوششوں سے منع کیا۔ قرون وسطی کے آخر میں، فلسفے میں نئی آوازیں بلند ہوئیں۔ تھامس ایکیناس نے آسمان اور زمین کے درمیان تعلق کے بارے میں اپنی تفہیم کا آغاز مذہب کے اندر موجود نظریات کے ساتھ کیا، جس نے ارسطو اور ابن رشد کے نظریات کا مطالعہ کیا۔
عربوں میں فلسفہ کا سورج جلد طلوع ہوا اور ابو یوسف یعقوب الکندی عرب کی فکری ترقی کے ایک اہم مرحلے کا اظہار تھا، لیکن انہیں ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑا جو انہیں مرتد قرار دینے تک پہنچ گئی۔ یورپ اور عرب ممالک میں درجنوں فلسفی علماء کے حملوں کا نشانہ بنے۔ اسی ادوار میں ابو الولید ابن رشد، فقیہ، منصف اور فلسفی، افلاطون کا مفسر، انسانی ذہن میں ایک عظیم اضافہ تھا۔ بد قسمتی رہی کہ اندلس میں مسلمان فقہاء نے اس کا تعاقب کیا، اور اس کی کتابوں کو جلا دیا گیا، جب کہ یورپ کے مفکرین نے اس کے علمی کام کو سراہا، وہ نشاۃ ثانیہ کے آغاز میں ایک اہم روشنی تھا، درجنوں فلسفیوں اور مفکرین نے فلسفے کی لڑائیوں میں اپنی جانیں دیں۔ بدقسمتی ہے کہ مسلم ممالک میں آج تک یہ لڑائیاں تھم نہیں سکی، جب کہ یورپ اس تاریک پہلو پر قابو پا چکا ہے۔ فلسفہ وہ قوت ہے، جس نے انسانی ذہن کی ذہانت کو جنم دیا۔ کسی بھی قوم میں فلسفیانہ تصور کے بغیر کوئی نشاۃ ثانیہ حاصل نہیں ہوا جو تمام شعبوں: سائنسی، سیاسی، سماجی اور قانونی میں ترقی کے دروازے کھولے۔
جرمنی میں پندرہویں صدی کے وسط میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد پورے یورپ میں تعلیم پھیل گئی۔ پادری مارٹن لوتھر نے مذہبی سائنس، تاریخ اور فلسفے کو یکجا کیا، رومن کیتھولک چرچ کے خلاف بغاوت کی، اور بائبل کا لاطینی سے جرمن میں ترجمہ کیا، نئے ذہن کے ساتھ ایک نیا وقت شروع ہوا۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں سینکڑوں فلسفی اور مفکر سامنے آئے اور انہوں نے فلکیات، فطرت، طب، معاشیات، سیاست اور نظم و نسق میں انقلاب کے دروازے کھول دیے۔ آمریت کا خاتمہ ہوا، اور فلسفیوں اور مفکرین نے خود کو سیاست، انتظامیہ اور معاشیات میں قوانین بنانے کے لیے وقف کر دیا۔ ایک نئے انسان کے ساتھ ایک نئی دنیا بنائی گئی۔
ماضی قریب میں طویل صدیوں تک، عرب اور اسلامی ممالک پر اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اور انکسائزیشن نے ذہنوں پر راج کیا۔ پرنٹنگ پریس، جس کی ایجاد سنہء 1445 میں ہوئی تھی، عثمانی دور حکومت میں تمام اسلامی ممالک میں سنہء 1717 تک پابندی لگا دی گئی تھی، صرف اسی ادوار میں یورپ نئے دور میں داخل ہوچکا تھا، انیسویں صدی کے آغاز سے بیشتر مسلم ممالک استعمار کی گرفت میں آچکے ہیں اور ناخواندگی کی دلدل میں دھنسنے والے معاشروں میں تعلیم، فکر اور فلسفہ وراثت سے محروم ہے۔ چند آوازوں نے نئے دور کے لیے کھلے خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن انھیں شاذ و نادر ہی کوئی سننے والا ملا اور ان میں سے کچھ کو ستایا اور مسترد بھی کیا گیا۔
حالیہ برسوں میں عرب خطے میں ایک فلسفیانہ ہلچل مچی ہوئی ہے۔ مراکش کے ایک مفکر محمد عابد الجابری کا ایک بہت بڑا انسائیکلوپیڈک کام "عرب ذہن کی تنقید"، جس میں اس نے عرب ذہن کے اجزاء یعنی بیان، علم اور ثبوت کو ڈی کنسٹریکٹ کیا۔ اس عظیم کام کے بارے میں وسیع بحث ہوئی ہے جسے میں نے یہاں کئی عربی مضامین میں دیکھا ہے، اس پر ایک اور مفکر، جارج ترابیشی نے کئی سال اس مطالعہ میں گزارے کہ الجابری نے کیا حاصل کیا، اور "عرب ذہن کی تنقید ہر تنقید" کے عنوان سے ایک کتاب بھی شائع کی ہے۔
انہوں نے الجابری کی بعض باتوں کی تردید بھی کی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ آج تک نہیں سمجھ سکے کہ تنقید کے فلسفے نے یورپ اور امریکہ میں فکری قوت کو جنم دیا۔ فرینکفرٹ اسکول کی بنیاد مفکرین اور فلسفیوں کے ایک اشرافیہ گروپ نے رکھی تھی، اور اس نے مغربی ثقافت اور زندگی میں جدیدیت کا کردار ادا کیا تھا، مراکش کے مفکر عبد اللہ لاروی نے تصورات پر کتابوں کی ایک طویل سیریز لکھی۔ انہوں نے بہت سے ایسے موضوعات پر گفتگو کی جو فکر اور زندگی کو متحرک کرتے ہیں۔ ان کے کاموں نے عرب خلا میں سوچ کو متحرک کرنے میں ایک اہم اضافہ کیا۔ محمد ارکون نے عرب اسلامی فکری ورثے کا علمی جائزہ لیا۔
عرب میں طہ حسین نجیب محفوظ محمود درویش عبدالرحمن بدوی اور رجب بودبوس جیسے لوگ پیدا ہوئے ہیں، مجھے بدقسمتی پاکستان کے کسی فرد کی فکر ایسی نظر نہیں آتی، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں موٹیویشنل اسپیکر اور خطیب پیدا ہوتے ہیں، جو فکر یا سوال کرنے کی استعداد نہیں بلکہ صرف جھاگ پیدا کرتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے ہاں جہالت، پسماندگی اور دہشت گردی کا محرک بلا روک ٹوک جاری ہے۔
میں نے یہ تحریر کیوں لکھی اس لئے کہ میرے پاس ایڈ شائد امریکا سے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر نے جن کا میدان بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہے، انہوں نے موجود ارٹیفیشل انٹیلیجنس کی موجودہ حیثیت اور اس کے مستقبلپر شاندار آرٹیکل لکھے، مگر میں نے بدقسمتی سے وہاں پر مذہبی طور پر بغیر سوچے سمجھے بغیر دلیل کے ارٹیفیشل انٹیلیجنس پر فتوی بازی اور حلال حرام کے مباحث دیکھے میرے لیے یہ صورتحال بالکل ہی عجیب ہے، آج جب کہ سعودی عرب جیسے مسلم ریاست پچھلے سال دنیا کا سب سے بڑا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا ورک شاپ کرتی نظر آرہی تھی، جس میں پوری دنیا سے لوگ شریک ہوئے تھے۔
میں ان حالات میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ افسوس یہ نہیں ہے کہ آپ اس ترقی پر نہیں ہیں، افسوس یہ ہے کہ آپ سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے یعنی حقائق کا نکار کرنے والے لوگ ہیں، یا تو آپ انتظار کریں اور اس ترقی کا حصہ بننے کی کوشش کریں، ممکن ہے کہ مستقبل میں آپ کی بدلتی سوچ ہی آپ کو یہ فائدہ دے دیں کہ کہ آپ اس کے افادی پہلوؤں سے خود استفادہ کرنے کے قابل ہو جائیں۔ ورنہ تو صرف انکار کرنے سے حقائق نہیں بدلنے والے، مگر آپ ضرور اور پستیوں میں چلے جائیں گے۔
نوٹ: میں حقیقت میں ٹیکنالوجی، آرٹیفشل انٹیلیجنس کے بارے میں بہت معمولی معلومات رکھتا ہوں۔ اس لئے میں خود سے کبھی بھی اس کی تکنیک پر اور اس کی انفارمیشن کے بارے میں زیادہ بات نہیں کر سکتا لیکن میں نے جتنا پڑھا یا سمجھا میرے خیال میں یہ مستقبل میں ہماری زندگی میں ایک بڑا گیم چینجر ہے۔