Hamas, The Art Of War Of Sun Tzu Se Seekhen
حماس، "دی آرٹ آف وار آف سن زو" سے سیکھیں
سن زُو ایک مشہور چینی فوجی جنرل، فلسفی اور جنگی ماہر تھے۔ جن کا زمانہ تقریباً پانچویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کی مشہور کتاب آرٹ آف وار (The Art of War) جو انھوں نے 512 قبل مسیح میں لکھی۔ جو جنگی حکمت عملیوں اور لیڈرشپ کے اصولوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب جنگ کے میدان میں کامیابی کے لئے حکمت عملی، منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کی اہمیت کی حامل ہے۔ سن زُو کی حکمت عملیوں کا استعمال نہ صرف فوجی میدانوں بلکہ کاروبار، لیڈرشپ اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ہوتا ہے۔
یہ کتاب کئی ممالک انڈیا، امریکہ اور برطانیہ کے مشہور تعلیمی ادارے اور ملٹری اکیڈمیز میں پڑھائی جاتی ہے۔
سن زُو کے مطابق جنگ کی کامیابی کی بنیاد مؤثر منصوبہ بندی پر ہوتی ہے۔ سن زُو کہتے ہیں کہ جنگ سے پہلے کی تیاریاں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ آیا آپ کی فوج میدان جنگ میں کامیاب ہوگی یا ناکام۔ جنگ میں کئی بنیادی عوامل شامل ہیں جو ہر کمانڈر اور لیڈر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
قیادت۔
سن زُو کے مطابق، ایک اچھا كماندار وہ ہے جو اپنی آرمی کو لیڈ کر سکے اور جنگ میں پر عزم ہو۔ بہترین کمانڈر وہ ہے۔ جو اپنے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہو اور انہیں صحیح رہنمائی فراہم کرتا ہو۔ حماس میں یہ چیز کافی حد تک موجود ہے۔ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی قیادت اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ یہاں تک کہ بچے اپنے جانبق ہونے والے رہنماوں کو رول ماڈل کے طور پر اپنا رہے ہیں۔
فوج کی طاقت۔
سن زو کے مطابق اپنی فوج کی تعداد، طاقت، کمزوریوں اور قوتوں کا صحیح اندازہ لگانا کامیابی کے لئے نہایت اہم ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کی فوج کتنی مضبوط ہے اور کہاں آپ کو مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ اسرائیل دنیا کی طاقتور آرمی اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ گلوبل فائر پاور انڈ کس کے 169500 آرمی پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ٹینک، میزایل بو ہٹس، ڈرون اور F-16 اور F 35 لڑاے طیار ے موجود ہیں۔ جب کہ دوسری طرف حماس کے پاس 5000 سے 7000 تک جنگجو ہیں۔ حماس کو اپنی فوجی قوت ہر حل میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کیوں کہ اسرائیل کا نہ ختم ہونے والا تنازﻉ ہے۔ مڈل ایسٹ جنگ کی آگ میں رہے گا۔
سپاہیوں کا حوصلہ۔
سن زُو کے مطابق سپاہیوں کے حوصلے کو بلند رکھنا کامیابی کے لئے لازمی ہے۔ بلند حوصلہ آپ کی فوج کو کامیابی کی طرف گامزن کر سکتا ہے اور جب فوج میں یکجہتی اور حوصلہ ہو جنگ کو آسانی سے جیتا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس اور فلسطین ابھی تک اسرائیل سے لڑ رہے ہیں۔ یہ ان کے بلند حوصلے کی عکاسی کرتا ہے۔
لوجسٹک نظام۔
سن زُو کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران وسائل کا درست استعمال بہت ہی ضروری ہے۔ سپلائی لائنز کی حفاظت اور فوج کی ضروریات کا خیال رکھنا جنگ میں کامیابی کی بنیاد ہو سکتا ہے۔ ایک مضبوط لوجسٹک نظام کے بغیر، کوئی بھی فوج کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حماس کو بھی چا ہیے کہ وہ اپنا ایک مضبوط لوجسٹک نظام قائم کرے۔ تا کہ وه جنگ کے میدان میں دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے۔ مگر بد قسمتی سے حماس اس میں ناکام رہا ہے۔ کونکہ باہر کی دنیا اور اسلامی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم مانتے ہیں۔
ایک سال کی اس جنگ میں فلسطینیوں کو ہر قسم کی بنیادی سہولتوں خوراک، پانی اور ادویات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
چالاکی سے حملہ کرنا۔
سن زُو کہتے ہیں کہ بہترین جنگ وہ ہے جسے بغیر لڑے ہی جیتا جائے۔ یہ بہترین حکمت عملیوں کے ذریعے دشمن کو کمزور کرنے یا خود کو مستحکم کرنے کا عمل ہے۔ اس عمل میں اسرائیل حماس سے زیادہ اگے ہے۔ ایک سال کی اس جنگ میں حماس اور حزب اللہ اپنی قیادت کھو چکے ہیں۔ حماس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسرائیل کا جاسوسی کا نیٹ ورک توڑے۔
توانائی/طاقت کا استعمال۔
جنگ میں طاقت کا استعمال سمجھداری سے کرنا چاہیے۔ طاقت کا بے جا استعمال نقصان دہ اور وقت کی بربادی ہو سکتا ہے۔ سن زو کہتا ہے "توانائی کی قوت کو تبھی بڑھایا جا سکتا ہے جب اسے صحیح وقت اور جگہ پر استعمال کیا جائے"۔ جنگ میں طاقت کا مؤثر استعمال دشمن کی کمزوریوں کو سمجھنے اور ان پر حملہ کرنے میں ہے۔ جب آپ اپنے دشمن کی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں، تو آپ کی قوت خودبخود بڑھ جاتی ہے۔ جس سے آپ کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔
فوج کی نقل و حرکت۔
سن زُو کا کہنا ہے کہ فوجی نقل و حرکت میں لچکدار حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔ یہ نہ صرف دشمن کے حملوں سے بچاتا ہے بلکہ آپ کی فوج کو بھی نئے مواقع کی تلاش میں مدد دیتا ہے۔ جب آپ کی فوج میں تبدیلی کی گنجائش ہو، تو آپ کی فوج حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکے۔ فوج کے ساتھ ساتھ اعلی قیادت کو بھی چا ہے کہ وہ اپنی نقل و حرکت کو محدود ر کھے۔ حماس اور حز ب اللہ کی اعلی قیادت اسماعیل ہانیہ، یحییٰ سنوار اور حسن نصراللہ اپنی جان سے ہاتھ دهوچکے ہیں۔
جاسوسوں کا استعمال۔
سن زُو جنگ میں جاسوسی معلومات کی اہمیت پر زور دیتاہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دشمن کی معلومات حاصل کرنے کے لیے جاسوسوں کا استعمال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ معلومات کو بروقت حاصل کرنا کسی بھی جنگ میں کامیابی کا راز ہے۔ جاسوسی معلومات کی بنا پر جنگ کی حالت تبدیل ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کا جاسوسی نیٹ ورک بہت زیادہ مضبوط ہے جبکہ اس برعکس حماس کا جاسوسی نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے۔
حاصلِ کلام
حماس کو اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا۔ ورنہ ان کے لیے اپنی بقا مشکل ہو جائے گا۔ جنگ شروع کرنا آسان ہے مگر جنگ کی ایک قیمت ہوتی ہے اور وہ قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔ جنگ بہت سی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے۔ جنگ کو دشمن کے نکتہ نظر سے د یکھا جا ے تاکہ جنگ میں نقصان سے ممکن حد تک بچا جا سکے۔ آپ شام، عراق اور لیبيا کو دیکھ لیں کئی سال لگے ملک کو بننے میں مگر جنگ کے نتجے میں ایک مٹی کے ڈهیر میں تبدیل ہو گئے۔ جنگ انسانی زندگی، معیشت، سماجی ڈھانچے اور نفسیاتی اثرات متاثرہ قوم کو تباہ وبرباد کر دیتی ہے۔ اس کا اثر صرف میدان جنگ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتائج کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔