Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Masiha Ya Mafia

Masiha Ya Mafia

مسیحا یا مافیا‎

یہ وہ دور تھا جب، یاسمین راشد وزیر صحت تھیں۔ میری مرحومہ بڑی بہن کو شدید دل کی تکلیف محسوس ہوئی۔ بہن بیوہ تھیں اور اولاد نرینہ سے بھی محروم تھیں۔ چاروں بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔ وہ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ جب انھیں دل کی تکلیف ہوئی تو اتفاق سے گھر میں کوئی نا تھا۔ ہمسائے کا لڑکے نے انھیں پنجاب کارڈیالوجی لے گیا اور سب کو فون کر دئیے۔

فجر کا وقت شدید حبس کے دن سب لوگ ہسپتال پہنچنا شروع ہو گئے۔ میرے بچے چھوٹے تھے۔ میں بھی اکیلی پنجاب کارڈیالوجی پہنچ گئی۔ جب میں نے ہسپتال کے اندر قدم رکھا۔ انتہائی صاف ستھرا ائیر کنڈیشنڈ ویٹنگ روم، مگر خالی، صرف صفائی کرنے والا سٹاف اور سیکورٹی گارڈ نظر آرہا تھا۔ میں نے سوچا شاید صبح ہے۔ اسی لیے کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ پوچھتے پوچھتے میں ایمرجنسی وارڈ تک پہنچ گئی۔ اندر وہی حال تھا، جو پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں ہوتا ہے۔ کیونکہ باجی ڈاکٹرز کے حساب سے سیریس نہیں تھیں۔ اس لئیے انھیں وہیل چیئر پر ہی طبی امداد فراہم کی جا رہی تھی۔

ڈاکٹرز نرسز کے ساتھ خوش گپیوں میں اتنے مصروف تھے۔ بار بار بلانے پر بھی کسی تیماردار کی بات کا جواب تک نہیں دے رہے تھے۔ میں دو گھنٹے باجی کے پاس کھڑی یہ تماشے دیکھتی رہی۔ جب میری ذہنی تھکاوٹ نے وجود پر حاوی ہونا شروع کر دیا۔ تو میں نے دیوار کا سہارا لیا۔ بہن ایک دم پریشان ہوگئی۔ سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے مرحومہ بہنیں اپنے بچوں کی طرح شفقت کا اظہار کرتی تھیں۔ انھوں نے فوراََ کہا کہ تم باہر ویٹنگ روم میں چلی جاؤ۔ یہاں حبس ہے۔

مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ اگر ہسپتال میں مزید وقت گزارنا ہے تو کچھ دیر بیٹھنا پڑے گا۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دن کے گیارہ بجے اور ویٹنگ روم بالکل خالی۔ صرف وہی اسٹاف جو صبح نظر آرہا تھا ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔ میں نے سوچا کہیں کوئی ہڑتال تو نہیں۔ یہی سوچتے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھی ہی تھی کہ صفائی والی عورت بولی یہاں نہیں بیٹھتا۔ میں سمجھی شاید مزید فرش صاف کرنے ہیں۔ میں آٹھ کر مین دروازے کے قریب بینچ پر بیٹھ گئی۔ سیکورٹی گارڈ فوراََ میرے قریب آیا اور بولا یہاں نہیں بیٹھنا، باہر جائیں۔

میں نے پوچھا کیوں؟ بولا ایم ایس نے منع کیا ہے۔ میں نے پوچھا بھائی کیوں منع کیا ہے۔ ویٹنگ روم تو بیٹھنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔

سیکورٹی گارڈ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ سامنے کمرے میں ایم ایس بیٹھا ہے جائیں اس سے پوچھ لیں۔ میں نے کہا بھائی آپ ہی بتا دو۔ یہ ویٹنگ روم کس لیے بنائے ہیں؟ اب کی بار سیکورٹی گارڈ غصے سے بولا آپ جائیں ایم ایس سے ہی پوچھ لیں۔

میرے میں کسی زمینی خدا سے بات کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں خاموشی سے باہر نکل گئی۔ باہر جا کر پھولوں کی کیاری کی چھوٹی دیوار پر بیٹھنے ہی لگی تو صفائی والی خاتون فوراََ قریب آئی اور بولی یہاں بیٹھنا منع ہے۔ میں نے پوچھا جو لوگ مریض کو لے کر آتے ہیں وہ کہاں بیٹھتے ہیں؟ اس عورت کو شاید مجھ پر ترس آگیا۔ بولی وہ پیچھے جو ہال ہے وہاں چلی جائیں۔ میرے استفسار پر بولی۔ اگر کوئی مریض مر جائے یا کوئی ایمرجنسی ہو تو ہم وہاں سے گھر والوں کو بلا لیتے ہیں۔ مگر وہاں سے ہلنا مت۔ یہ نا ہو کہ آوازیں لگتی رہیں اور آپ کو پتا بھی نا چلے۔ میں چلتے ہوئے اس ہال تک پہنچی۔ دروازہ کھولتے ہی میرا دماغ گھوم گیا۔ اتنے لوگ کہ اللہ کی پناہ۔ حبس کی وہ کیفیت کہ یوں لگے دم گھٹ جائے گا اور ظلم یہ کہ دروازہ بند کر دیا گیا۔

مجھے یوں محسوس ہوا کہ مجھے بے ہوش ہونے میں پانچ منٹ اور مرنے میں صرف دس منٹ لگیں گے۔ میری آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں اور شوہر چہرہ آگیا۔ میں فوراََ باہر نکلی۔ دوبارہ اندر گئی۔ بھانجی اور بہن کو طبعیت خرابی کا بتایا۔ باجی نے کہا فوراََ گھر چلی جاؤ۔ میں نے رکشہ پکڑا اور گھر چلی گئی۔ گھر پہنچ کر جب میرے حواس برقرار ہوئے۔ تو میں نے شوہر سے وعدہ لیا کہ موت تو برحق ہے اگر میرا آخری وقت بھی آ جائے تومجھے ہسپتال نا لے جانا۔ انھوں نے ہنس کر کہا میں پرائیویٹ ہسپتال لے جاؤں گا۔ میں نے ایک اور وعدہ لے لیا کہ آپ کی حلال کی کمائی، ہسپتالوں کے بل بھرنے کے لیے نہیں ہے۔ وہ پیسے بچوں پر خرچ کر دینا۔

مجھے شدت سے احساس ہو چکا تھا۔ کہ ہم عام عوام اشرافیہ کے ان کتوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ جنھیں وہ اپنے بیڈ رومز میں سلاتے ہیں۔ اندازہ کریں ایک ہسپتال کا ایم ایس اپنے روز کے راستے پر، غریب عوام کو برداشت نہیں کر سکتا، تو اس سے اوپر والے عہدوں کا کیا حال ہوگا؟

صرف شہباز شریف کا دور پنجاب کا وہ دور تھا۔ جس میں ہم عوام کو انسان سمجھا جاتا تھا۔ میں نے سابقہ خادم پنجاب کے چہرے پر کبھی دشمنوں کو جلانے والی مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی۔ ان کے چہرے پر فکر اور تردد جھلکتا تھا۔

اور یہ ڈاکٹر انھوں نے عام عوام کی کتنی بددعائیں سمیٹنی ہیں۔ سمجھ سے بالا تر ہے۔ ان کے اندر احساس بالکل مر چکا ہے۔ یہ قصاب خانوں کے قصائی ہیں۔ اپنے پرائیویٹ کلینکس میں یہ عوام کی کھال اتارتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتالیں کرکے عوام کی لاشوں پر رقص کرتے ہیں۔

میری اپنے جیسی عام عوام سے التجا ہے کہ اگر آپ کا کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے، ٹانگ بازو ٹوٹ جائے۔ تو ہسپتال جا کر پلستر چڑھوانا آپ کی مجبوری ہے۔

مگر اگر آپ کے اندرونی اعضاء بالکل ختم بھی ہو جائیں۔ تو گھر کے بستر پر لیٹ کر اللہ تعالیٰ سے صحت مانگ لیں۔ ان قصائی نما مسیحاؤں کے ہاتھوں نا تو خود رسوا ہوں اور نا ہی اپنے گھر والوں کو ذلیل کروائیں۔

کسی سیاستدان کے جھوٹے بیانات اور تصویروں پر یقین نا کریں۔ یہ وہی کچھ دیکھتے ہیں جو ان کی آنکھیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہی کچھ سنتے ہیں۔ جو ان کے خوشامدی درباری سناتے ہیں۔ پھر چاہے وہ عمران خان ہو، وزیر اعلیٰ سندھ، پنجاب یا کے پی کے، ہوں۔ سب کی کہانی ایک ہے، بس چہرے بدلے ہوئے ہیں اور کہانی سنانے کا انداز الگ الگ ہے۔

عام عوام کا مقدر صرف پسنا اور بے بسی سے بد دعائیں دینا ہے۔

Check Also

Wo Shakhs Jis Ne Meri Zindagi Badal Dali

By Hafiz Muhammad Shahid