Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Durust Rasta

Durust Rasta

درست راستہ‎

پاکستان ہمارا پیارا ملک غالباََ دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے۔ جس میں ہر شخص اپنے آپ کو ہر کام کا اہل سمجھتا ہے۔ ہم ہر کامیاب اور اہل شخص سے حسد کرتے ہیں۔ ہم سے ہر تیسرا فرد یہ جملہ بولتا ہےکہ یہ اس قابل تو نہیں، مگر نا جانے کیسے اس عہدے پر پہنچ گیا۔

یہ تو حسد کی ایک کیفیت ہے، مگر مسئلہ صرف اس جذبے تک نہیں رہتا۔ ہم لوگ ہر کام خود کرنے کی کوشش میں میس پھیلاتے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں لگتا ہے ہر فرد آسان کام کر رہا ہےاور نوٹ چھاپ رہا ہے۔ جب کہ ہمارے راستے مشکلات سے بھرے ہیں۔

میں ہر طرف یہ رویہ دیکھتی ہوں اور وجہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ مجھ جاہل کو جو سمجھ آتا ہے۔ آپ کے سامنے رکھتی ہوں۔

ہمارے بہت سے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جس کا جو کام ہے، یا جس نے جو تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اس کے مخالف کام کر رہا ہے۔

اندازہ کریں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر مقابلے کا امتحان پاس کرکے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آئی جی بن جائے۔ ایک کھلاڑی ملک کا وزیراعظم بن جائے۔ ہر جاگیردار کا سیاستدان بننا ضروری ہو۔ جرنلسٹ وزیر داخلہ اور چئیر مین پی سی بی اور سینیٹر بن جائے۔ وفادار اور جانثار کارکنان قابلیت نا ہونے کے باوجود اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جائیں، تو اس ملک کا پھر وہی بنے گا جو اس وقت پاکستان کا بنا ہوا ہے۔

اس ملک میں اہلیت کا معیار یہ ہے کہ آج بھی فراٹے سے انگریزی بولنے والا پڑھا لکھا کہلاتا ہے۔ ہم اپنی قومی زبان اردو کو اپنے ہی ملک میں اہمیت نا دلوا سکے۔ تو دنیا میں کیا عزت ہوگی؟

ہمارے سیاستدان خاص طور پر صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھنے والی خواتین منہ بگاڑ کر انگریزی جھاڑتی ہیں اور وہ مثال یاد دلاتی ہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔

ایک طرف ڈریس ڈیزائینگ ہو رہی ہو اور دوسری طرف اسمبلی کی سیٹ سے فیضیاب ہوا جا رہا ہے۔ فیکڑیوں کے مالک، سیاستدان بن کر غریب عوام کے مسائل حل کرنے کی تگ ودو کر رہے ہیں۔ جنھوں نے غربت نہیں دیکھی وہ پینٹ کوٹ پہن کر، جون میں ٹھنڈی اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کی بجلی ہی مہنگی کر سکتے ہیں۔

ہمارے وکیل عدالت کی بجائے سیاستدانوں کے گھروں کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں اور جیت کر اسمبلیوں میں جب پہنچتے ہیں تو غنڈہ گردی کے مظاہرے کرتے ہیں۔ یعنی جیت کر وکیل اسمبلی میں پہنچ جائے، پھر اپنی ذاتی وکالت بھی چمکائے اور ہم عوام کے لیے فیصلے بھی کرے۔

ہمارے صحافی ہر وقت اپنے پروگرامز میں فساد ڈالنے کے درپے رہتے ہیں۔ میڈیا کا ہر فارم استعمال کرکے عوام میں مایوسی، قنوطیت، اور ذہنی پریشانی ڈالتے ہیں۔ ہر وقت نا انصافیوں کا پر چار کرتے ہیں، تا کہ عوام سکون سے نا رہ سکے۔ اس لئے کہ صحافی صحافت کو مضمون کے طور پر پڑھ کر نہیں آئے بلکہ صحافی بن گئے ہیں۔ پاکستان میں آئی ٹی انجینئرز بھی سوشل میڈیا پر تخلیق کار بنے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ہم ہر کام پیسہ کمانے کے لیے کرتے ہیں۔ اس وجہ سے جب کوئی کسی عہدے پر براجمان ہو جائے تو موت کے علاؤہ کسی کی جرآت نہیں، جو اسے اس عہدے سے اتار سکے اور جب انھیں یقین ہو جائے کہ اب میری بس ہوگئی ہے اور میں اس عہدے کو سنبھال نہیں سکوں گا تو پھر وہ اپنے بیٹے، بھائی یا پھر بیٹی کو اس عہدے پر بٹھاتا ہے۔ مگر کسی اور کے لئے جگہ نہیں چھوڑتا۔ یاد رکھیں۔

یہ غیر مساوی تقسیم آپ کو اس دنیا میں تو شاید بے حد کامیاب بنا دے۔ مگر ایک دنیا اور بھی ہے جس میں ہم نے ہمیشہ کے لئے رہنا ہے اور وہاں حساب کتاب کے بغیر نہیں جا سکیں گے۔

وہاں کا حساب کتاب قانون کی کتابیں کھول کر، ریلیف دے کر نہیں ملے گا۔ بلکہ اللہ رب العزت کا انصاف ہوگا۔ جو قرآن کریم میں کہتا ہے کہ میری پکڑ بڑی شدید ہے۔ مجھ سمیت ہم سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے اور اپنے درست راستے کو متعین کرنا چاہیے۔ جب راستہ درست اختیار کیا جائے گا تو منزل قریب ہوتی چلی جائے گی۔ انشاءاللہ۔

Check Also

Mazdooron Ka Aalmi Din

By Kiran Arzoo Nadeem