Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Doosron Ko Jagha Deni Shuru Kar Dein

Doosron Ko Jagha Deni Shuru Kar Dein

دوسروں کو جگہ دینی شروع کر دیں

ہمارے پیارے ملک پاکستان میں جو شخص اپنی ذاتی محنت اور خوش قسمتی کی بنا پر کسی مقام تک پہنچ جائے، یا یوں کہیں کہ کامیاب ہو جائے۔ وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ ذہنی مریض وہ نہیں جو دوسروں پر جسمانی حملہ کر دے، بلکہ یہ دوسروں پر اخلاقی اور ذہنی حملہ کرتا ہے۔

کیوں کہ میں شعبہ تدریس سے وابستہ رہی ہوں، اس لیے اسی کی مثال دیتی ہوں۔ ایک شخص جب نیا نیا استاد بنتا ہے تو بڑے جذبے کے ساتھ، پرعزم ہو کر نوکری کی تلاش کرتا ہے۔ گورنمنٹ یا پرائیویٹ سیکٹر جہاں بھی نوکری مل جائے وہ بڑی خوشی خوشی تدریسی عمل کا حصہ بنتا ہے۔ بس چند ہفتے گزرنے کی دیر ہے اس کا دھیان بچوں پر کم اور انتظامیہ پر زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس راہ پر خار میں اسے اپنی نوکری بھی بچانی ہے اور ساتھ ساتھ کام کے حوالے سے بہترین نتائج بھی دینے ہیں اور سب سے زیادہ سنئیرز جیسے زمینی خداؤں کی ذہانت، محنت کے قصوں پر سر بھی دھننا ہے۔

آپ سوچیں ایک بندہ کسی شعبے کو زندگی کے پندرہ سے بیس سال دے تو وہ کتنا ماہر ہو چکا ہوگا۔ اب وہ نئے آنے والے سے الٹے سیدھے سوال کرے اور اسے جتائے کہ تم جاہل اور میں علامہ صاحب ہوں، تو کتنی کم ظرفی کی بات ہے۔

ہمارے اسکولز میں تخلیقی کام کم اور یاد زیادہ کروایا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمیں امتحانات میں نمبر، یاداشت اور خوبصورت لکھائی کی بنا پر مل رہے ہوتے ہیں۔ اورئینٹل کالج میں اس بات کا بھرپور تجربہ حاصل ہو چکا ہے۔ ایک مرتبہ استاد محترم نے بیس سے پچیس کتابوں کے نام لکھوائے اور کہا کہ فلاں موضوع پر ان کتب سے مواد مل جائے گا۔ ڈرتے ڈرتے کسی نے سوال کیا سر کیا ایک موضوع پر اتنی کتابیں پڑھی جائیں گی؟ استاد محترم نے جواب دیا، مشہور بات ہے کہ اردو ادب میں ایم اے کرنے کے بعد ان کتابوں کو پڑھا جاتا ہے۔ پہلے ایم سے کر لیں پھر زندگی کے فارغ اوقات میں ان کتابوں کو پڑھتے رہیں۔۔

مذاق میں کی گئی اس بات کی حقیقت عملی زندگی میں واضح ہو جاتی ہے۔

ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی جس لڑکی نے پوری جامعہ اور پورے پنجاب میں ٹاپ کرکے دو گولڈ میڈل حاصل کیے اور جامعہ کی طرف سے مزید دو اور گولڈ میڈل دئیے گئے یعنی چار گولڈ میڈل حاصل کرنے والی لڑکی کو اردو درست تلفظ کے ساتھ بولنا نہیں آتی تھی۔ وہ لفظ برداشت کو (بر دیشت) بولتی تھی اور ہم ہنستے تھے کہ اپنے گولڈ میڈلز کی ہی لاج رکھ لو۔ مگر اس کی لکھائی جیسے موتی پروئے ہوں اور لکھنے کی رفتار ایسی کہ ٹائپ رائٹر کو بھی مات دے۔ جہاں طلبہ سے امتحانی کاپی بھرنا مشکل ہو رہا ہوتا تھا، وہ لڑکی صرف پندرہ منٹ کے بعد مزید امتحانی کاپی کا تقاضا کر رہی ہوتی تھی۔

لیکن میں نے اس لڑکی کو اچھرہ لاہور کے ایک اسکول میں جاب کرتے دیکھا، اور سیکنڈ ڈویژن والی لڑکی جس کی دو خالائیں اردو لیکچرار تھیں۔ اسے لیکچرار بنتے دیکھا۔

کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ قسمت اور دعائیں ساتھ دے تو محنت بھی رنگ لے آتی ہے۔ ورنہ ایک مزدور سے بڑھ کر محنتی کون ہوگا؟

میری کامیاب لوگوں سے التجا ہےکہ اگر کسی دعا کے سبب اللہ نے آپ کو کامیابی عطا کر دی ہے تو خود کو زمینی خدا نا سمجھیں، نئے لوگوں کو جگہ دینے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ان کی تضحیک نا کریں۔

آپ بھی تو کبھی اسی مقام پر کھڑے تھے۔ اور قدرت نے کسی کو وسیلہ بنا کر آپ کا ہاتھ پکڑا تھا۔

خاص طور پر صحافی برادری یہ یاد رکھا کرے کہ جب کسی نے صحافی بننا ہو تو پھر وہ چاہے ویٹر ہی کیوں نا ہو، آپ کے برابر بیٹھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور آپ اس تجزیے کو سننے پر مجبور بھی ہوتے ہیں۔

اس لیے خود کو عام انسان ہی سمجھیں، عوام کی محبت آپ لوگوں کو اہم بناتی ہے۔ اور پاکستان میں محبت اور شہرت کس کی دین ہوتی ہے۔ یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔

Check Also

Mukalmat Zindagi Badal Dene Wali Kitab

By Abid Hashmi