Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. 14 August Ka Tohfa

14 August Ka Tohfa

چودہ اگست کا تحفہ

شادی کے ایک سال بعد مجھے عمرے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ میرا پہلا بین الاقوامی سفر بھی تھا۔ ہمارا ٹور اکیس دن کا تھا۔ مجھے پہلے مکہ، پھر مدینہ اور پھر دوبارہ مکہ رہنے کا موقع نصیب ہوا۔ عبادت اور دلی کیفیات شئیر نہیں کروں گی، کیوں کہ یہ مکمل ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن وہاں کے انتظامات، قوانین اور ان پر عملدرآمد کی سختی نے مجھے حیران اس لیے کیا کہ میرا تعلق پاکستان سے تھا۔

ہمارے ہوٹل سے حرم تک کا فاصلہ صرف ایک سڑک کا تھا۔ صحرا میں ہونے کے باوجود مجھے اس سڑک پر مٹی محسوس نہیں ہوئی۔ وجہ کہ ہر وقت کوئی نا کوئی مٹی کو موپ کے ذریعے صاف کر رہا ہوتا تھا۔ لاکھوں لوگوں کی حرم میں ہر وقت آمد، اور ننگے پاؤں ہونے کے باوجود آپ کے پاؤں گندے نہیں ہوتے۔ ایک دن ہم نماز ظہر کے لیے حرم میں داخل ہو رہے تھے کہ ایک انتہائی قیمتی گاڑی سڑک پر رکی ایک سات آٹھ سال کی بچی نیچے اتری ہاتھ میں پکڑا عبایا پہنا اور سر پر اسکارف لے کر شاید باپ کا ہاتھ پکڑ کر اندر حرم میں داخل ہوگئی۔

میں نے جینز پہنے اور اوپر سے عبایا، حجاب پہنے کئی لڑکیوں کو دیکھا۔ سب سے حیران کن نظارہ کھلی دکانیں، ساز و سامان سے بھری ہوئیں اور کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ رہا۔ کولڈ ڈرنکس کی مشین جس میں آپ ایک ریال ڈالیں اور سامنے ڈرنک اور دور تک کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں۔ مکے کے باہر سڑکوں پر معذور بچے گود میں ڈالے، فقیر غیر ملکی خواتین بھی دیکھیں اور دور سے پولیس کی گاڑی دیکھ کر انھیں غائب ہوتے بھی دیکھا۔ مکہ سے واپس جدہ ائیرپورٹ جاتے ہوئے خالی سڑک پر سیٹ بیلٹ کی پابندی کرتے ہوئے پاکستانی ڈرائیور کو دیکھ کر حیرانگی بھی ہوئی۔

میرے شوہر کے بھائی ریاض سے انھیں ملنے آئے۔ میں نے ان باتوں پر جب حیرانگی کا اظہار کیا تو وہ بولے۔ ان لوگوں کو آپ اتنا سیدھا نا سمجھیں کہ یہ سب کچھ خود ہی کر رہے ہیں۔ صرف قانون کا ڈنڈا ہے اور ہر شخص اس سے ہی ڈرتا ہے اور اگر حجاب کی اتنی سختی نا ہو تو شاید آپ کو حرم میں فیشن کی پریڈ نظر آئے۔ یہاں پر قانون بنائے نہیں جاتے، بلکہ عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔

میں پاکستان کے ایک مڈل کلاس گھرانے کی لڑکی تھی۔ جو زندگی میں پہلی بار پچیس سال کی عمر میں دوسرے ملک گئی تھی۔ میرے لیے ہر بات حیران کن تھی اور مجھے قانون کے اس ڈنڈے کا اندازہ نہیں تھا جو سب کو درست کرتا ہے۔ میں نے تو اس ڈنڈے کو مظلوموں پر برستے اور امراء کے آگے جھکتے دیکھا تھا۔

میں نے تو وہ پاکستان دیکھا تھا، جہاں پر سڑک پر ریپر دھڑلے سے پھینکا جاتا ہے۔

اور ٹریفک کا اشارہ دیدہ دلیری سے توڑا جاتا ہے۔

جہاں دکاندار کے ہوتے ہوئے، چوری ہو جاتی ہے۔

جہاں اے ٹی ایم مشین ہی اکھاڑ لی جاتی تھی۔

جہاں ریلوے کی پٹریاں چوری ہو جاتی ہیں۔ جہاں جب کسی کے پاس دولت آتی ہے تو سب سے پہلے اس کے خاندان کی خواتین سر سے دوپٹہ اتار کر جینز پہن لیتی ہیں۔ جہاں بیس سے پچیس سال تک لڑکے اور لڑکیوں کو بچہ کہہ کر ہر بات سے استثناء حاصل ہوتا ہے۔ جہاں آپ مسجد سے متعدی بیماریوں کے جراثیم لے کر گھر لوٹتے ہیں۔ جہاں پر شادی کی رسومات ہندوانہ طرز پر ہوتی ہیں اور سرحد پر ہر روز ان ہندوؤں کو للکارا جاتا ہے اور یہ ہندوستان جو آج تک پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کر سکا۔ مگر ہم نیرج چوپڑا کی ماں کا رواداری میں دیا گیا بیان، خارجہ پالیسی ہی بنا دیتے ہیں۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو آرمی تنصیبات جلانے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ انھیں ان اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں۔ جہاں عام عوام جانے کا بھی تصور نہیں کر سکتی۔ پورا صوبہ ہی ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔

میں کسی ایسی جادو کی چھڑی کی آرزومند نہیں جو سب کچھ پلک جھپکتے ہی درست کر دے۔ مگر صاحب اقتدار، اشرافیہ سے التماس ہے کہ صرف ایک قانون ہی اپنی اسمبلی سے ہنگامی بنیادوں پر پاس کروا لیں کہ چودہ اگست، یوم آزادی کے خوبصورت دن کسی سیاسی جماعت کا پرچم پورے ملک میں کسی جگہ نظر نہیں آئے گا۔ کسی پارٹی کا ترانہ پاکستان کی کسی گلی محلے میں بھی نہیں گونجے گا اور اگر گونجے گا تو قانون کا وہ ڈنڈا چلے گا۔ جو جینز پر بھی عبایا پہنا دیتا ہے۔ جو دکانیں کھلی رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔ جو صحرا میں سے بھی مٹی غائب کروا دیتا ہے۔ کاش کے ہمارے حکمران صرف ایک اسی قانون کا تحفہ اس یوم آزادی پر قوم کو دے دیں اور اس یوم آزادی پر اس کے اوپر عمل بھی کروا دیں۔۔ کاش۔۔

Check Also

Jadeed Maharton Ki Ahmiyat, Riwayati Taleem Se Aage

By Sheraz Ishfaq