1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Awan
  4. Main Bhi Kuch Kehna Chahti Hoon

Main Bhi Kuch Kehna Chahti Hoon

میں بھی کچھ کہنا چاہتی ہوں

بچوں کا گھر سے بھاگنا کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ پرانے وقتوں میں بھی ہوا کرتا تھا۔ یعنی سارا الزام موجودہ زمانے کی تیزی اور ٹیکنالوجی کو دینا سراسر سطحی نکتہ ہے۔ بچوں کے بھاگنے کا تعلق ہر شے تک رسائی سے بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو صرف بڑے گھرانوں کے بچے آئے روز کسی ایسی واردات میں ملوث پائے جائیں۔ شاید پڑھنے میں عجیب لگے مگر یہ سب صرف ایک لفظ "توازن" کے گرد گھوم رہا ہے۔ توازن کا بگڑ جانا یعنی معاشرے کا بکھر جانا۔

دنیا روز نئی سمت میں ترقی کیے جارہی ہے، ایسے میں کئی فتنوں اور چیلنجز کا سامنا ہورہا ہے اور یہ چیلنجز مزید بڑھتے جائیں گے۔ ہمیں بس توازن کو تھام کر چلنا ہے اور یہ ہم سیکھ کر کرسکتے ہیں۔ توازن سیکھنے میں بڑی خیر پوشیدہ ہے۔ ضروری تو نہیں کہ آپ کا بچہ ایکسپلور کرکے خراب ہورہا ہے، وہ ایکسپلور نہ کرنے کے سبب بھی بگڑ سکتا ہے۔ جیسے آدھا علم بھی وبال ہے۔

آپ نے اپنے بچوں کو بہت بار بتایا کہ انہیں پراعتماد، پرامید، قوت فیصلہ رکھنے والا، اسکلز والا اور آگے بڑھنے والا بننا ہے۔ مگر کمی کہاں رہ جاتی ہے؟ توازن میں۔ یاد رکھیے!زندگی کی سب سے اہم چیز تعلیم ہوا کرتی ہے۔ آپ علم سے انہیں دور رکھیں گے تو وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ مگر آپ کو انہیں ایک خاص سمت میں چلنا سکھانا ہے۔ انہیں یہ سکھانا بہت ضروری ہے کہ اعتماد، یقین، حوصلہ، ہمت یہ سب ہمارا حُسن تب ہی بنتے ہیں جب ہم ان کو ایک بیلینس کےساتھ لے کر چلیں۔

کہاں، کب، کیا چیز کیسے اپلائی کرنی ہے؟ لوگوں سے واسطہ تو پڑنا ہی ہے مگر کس لہجے اور کس مقصد کو ذہن میں رکھ کر تعلقات کو بہتر بنانا ہے؟ ٹولز اور ٹیکنالوجی ہماری آسانی کےلیے ہیں، جہاں آج بہت سے بچے سکول نہیں جاسکتے وہاں صرف ایک ٹول کے زریعے سکول بچے تک آجاتا ہے، اس ٹیکنالوجی کا مقصد کیا ہے؟ بچوں کو ایکسپلور کرنے سے مت روکیں مگر پہلے ان کی سمت کا تعین کرنا بھی مت بھولیں۔

ضروری تو نہیں بچہ تب ہی غلطی کرے جب آپ اسے موبائل پکڑا دیتے ہیں، وہ تب بھی غلطی کرتا ہے جب آپ موبائل پکڑے رکھتے ہیں اور بچے کو وقت نہیں دیتے۔ موبائل آپ کو بھی توازن سے استعمال کرنا ہے۔ بچوں سے باتیں کریں، ان سے سوالات کیا کریں، ان کی دلچسپی، ان کے شوق اور خوابوں کو موضوع بنایا کریں۔ کتابوں پہ بحث کیا کریں، ان کی کوششیں سنیں، سراہیں اور ان کے سامعین بن جائیں۔

یہ آپ ہی کرسکتے ہیں کہ آپ کا بچہ موبائل کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ میں نے اپنے وژنز کا آدھا حصہ اس موبائل پہ ہی کھوجا، سیکھا اور خود کو کھڑا کیا۔ بچوں کو مفید آرٹیکلز پڑھنے کی ترغیب دیں، جب کوئی ورکشاپ سامنے آئے انہیں شامل کریں، خود بھی لیں۔ سب سے بڑھ کر سیکھنے پہ انویسٹ کریں۔ صرف کپڑے، جوتے زندگی کا ڈیفائن نہیں کرتے۔ شخصیت، اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ، سوچنے سمجھنے کا شوق، پڑھنے لکھنے، سیکھنے کا رویہ ہمارا تعارف بنتا ہے۔

کبھی مجھے بھی لگتا تھا کامیابی پیسے، معاشرے میں ایک مشہور نام بن جانے، لوگوں کے آپ کے آگے پیچھے پھرنے میں ہے۔ میں نے سیکھ کر جانا ہے کامیابی کوشش میں ہے، یقین اور امنگ میں ہے، شوق اور مستقل مزاجی میں ہے۔ اور سب سے بڑھ کر معاشرے کے کام آنے میں ہے اور پھر باقی سب تو اسی میں خود آجاتا ہے۔ اعتماد صرف یہی نہیں کہ آپ سوال کا جواب دے سکتے ہوں، اعتماد زندگی کی مشکلات سے لڑنا بھی ہے، اعتماد کم از کم کوشش کرتے رہنا بھی ہے۔

اگر آپ پانچ دس جماعتیں بھی پڑھ جائیں تو سوچ سکتے ہیں کہ ایک انسان جب خود سے جڑنے والے دوسرے انسان کی ذمہ داری اٹھاتا ہے تو اس کےلیے کس قدر سیکھ اور پوٹینشل درکار ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ افسوس ناک اقدام صرف ایک خاص کلاس کے لوگوں میں نہیں پایا جاتا۔ اگر ایلیٹ کلاس ایکسپلور زیادہ کرکے بگڑ جاتی ہے تو مڈل کلاس تو اتنا بھی ایکسپلور نہیں کرتی کہ سال میں ایک بار اپنا طبی معائنہ کرانے کی اہمیت سمجھ سکے، پھر جذباتی اور ذہنی صحت تو بہت دور کی بات رہ جاتی ہے۔

ہر طرف صرف توازن کی کمی ہے۔ کوئی سستی میں شدید ہے تو کوئی تیزی میں۔ کوئی پچھلے زمانے میں بگڑا یا اب بگڑ رہا ہے وہ صرف انتہاء پسندی کے سبب ایسا کررہا ہے۔ اور جو بچ گیا، چاہے پچھلے زمانے میں یا اب، وہ بیلینس کا کلیہ نہیں بھولا۔ ہمیں شدت سے بچنا ہے، ہمیں توازن سیکھنا ہے۔ ہمیں تعلیم کو اپنا مقصد بنانا ہے۔ شادی کو آسان بنانے سے پہلے تعلیم کو آسان بنانا ہے۔

ہمیں شعور اجاگر کرنا ہے، ہمیں ایسے سیشنز ترتیب دینے ہیں جو بچوں کو رہنمائی دے سکیں، ہمیں سیاست کی بجائے ایسے موضوعات پہ لکھنا ہے جو ٹین ایجرز پڑھیں اور سیکھیں، ہمیں صرف والدین کو نہیں سکھانا بلکہ ان کو بھی سکھانا ہے جو والدین بننے جارہے ہیں یعنی آج کا ہر نوجوان یہ حق رکھتا ہے کہ اسے زندگی کے بنیادی موضوعات پہ سکھایا جاسکے۔

اور یہی موبائل جسے آپ زحمت کہہ رہے ہیں، آپ کا رستہ بن جائے گا۔

بس ذرا سا توازن!

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq