Hum Sab Mumkin Hain
ہم سب ممکن ہیں
یہ میرا گاؤں ہے اور یہاں اس جگہ بیٹھے مجھے ایک سوال کا جواب لکھنا ہے۔۔ میں کسے سپورٹ کرتی ہوں؟ میں خود کو سپورٹ کرتی ہوں۔ اور اسکے بعد میں تعلیم سے جڑے سارے اتار چڑھاؤ کو سپورٹ کررہی ہوں۔ شاید یہ کہانی بور کردے لیکن مجھے روز یہی کہانی میٹھی مصری سی زندگی سے ملواتی ہے۔
دو برس پہلے میں نے فیس بک پہ کچا پکا لکھنا شروع کیا تھا۔ ہمارے کالج کے ٹوٹے پھوٹے دروازوں کے ساتھ ٹیک لگائے میں لکھتی رہتی اور سوشل میڈیا کے اس پلیٹ فارم نے مجھے ان لوگوں سے ملوایا جن سے ملنا عمر کے اسی حصے میں ضروری تھا۔
اسی عرصے میں صحت کے حوالے سے بہت بھاری چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی عرصے میں ہمارے ایک سیمسٹر کی اضافی فیس آگئی جو ادا کرنا مشکل لگ رہی تھی۔ اسی عرصے میرے پاس ایسا موبائل فون تھا جو ہینڈ فری سے آن ہوتا تھا، نہ آواز آتی اور دو جملے ٹائپ کرنے پہ یہ رک جاتا تھا۔ اور میں ایک لمبا عرصہ لگا کر اس پہ لکھ پاتی تھی۔
علم والوں کا ساتھ نصیب ہوا، وژن ملا، شوق کو راہ ملی اور سب سے بڑھ کر سمت پہ کام شروع کیا۔ سب سے پہلے صحت پہ کام شروع کیا۔ اسپتالوں سے وہ اسباق سیکھے جو کوئی بڑی درسگاہ بھی نہ دے پاتی۔ سوچا کچھ نہ کچھ لکھ سکتی ہوں، کمیونیکیشن اسکلز، مائنڈفلنس پہ کافی آن لائن سیشنز اٹینڈ کیے۔
کتابیں پڑھیں اور آگے پہنچائیں۔ راہوں میں روشنی اترتی گئی۔ ذہن کھلتا گیا، سوچ کو وسعت ملی اور عمل میں استقامت نصیب ہوتی گئی۔ پہلی آن لائن جاب شروع کی، تعلیم سے جڑی ایک آرگنائزیشن کیلیے لکھنا شروع کیا۔ پہلی تنخواہ آٹھ ہزار روپے تھی۔
نئی ڈیوائس ضروری تھی تاکہ کام جاری رہ سکے۔ دو ماہ تک پیسے جوڑے، لیپ ٹاپ خریدا۔ انٹرنیٹ کے اخراجات پورے نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ اب زوم پہ آن لائن سیشنز دینا شروع کیے۔ مائنڈ فلنس پہ کتابوں پہ زندگی پہ جو بھی سیکھا اسے مزید پالش کرنے کو یہ سکھا دینے کا کام مددگار ثابت ہوتا رہا۔
ڈٹ کر محنت کی، انٹرنیٹ کے سارے اخراجات خود پورے کرنے کے قابل ہوگئی۔ اپنی فیس کیساتھ اسٹیشنری سے جڑے شوق بھی خود پورے کرنے لگی۔ اس کیلیے مستقل مزاجی درکار تھی۔ لوگوں کو پڑھا، سمجھا اور مشاہدہ بڑھا دیا۔۔
کہیں سر عارف انیس نے سکھا دیا اوکھے پینڈے کیسے اسٹیپ بائے اسٹیپ طے کیے جاتے ہیں۔ کہیں نیر آپا نے ٹھہراؤ کا، خوبصورت صبر کا اور مسلسل چلتے رہنے کا حوصلہ دیا۔ کہیں فرح آپا نے رب سے جڑے رہنے میں مدد کی۔ کبھی سر خطیب کے اسٹوڈنٹس نے میرا جنون بڑھا دیا، کبھی سر بشارت کے جامع اسباق کام آئے تو کبھی ثمر بھائی نے وہ سمجھا دیا جو نصاب بھی نہ سمجھا پایا۔
اس سارے عرصے میں اقصی، سر اسد، سر ڈاکٹر حسن خلیل، عھد کریم، تابندہ جاوید، امینہ بتول، رحما طارق، سر ظفر اقبال وٹو، سر یمین الدین احمد، آمنہ احسن، سر ڈاکٹر محمد نقاب خان اور مقدس طارق جیسے استاد رہنمائی کرتے گئے۔۔ اور میں نے خود کو اسپورٹ کرنا سیکھ لیا۔۔ پھر میں اپنے جیسے نئے آنے والوں کی اسپورٹ بننے کی تیاری کرنے لگی۔۔
وادی میں ایجوکیشن سسٹم سے جڑے مسائل کا حل بہت ضروری تھا۔۔ جس کیلیے ہم نے کوشش شروع کی۔ اور آج بھی صرف وادی ہی نہیں جہاں سے بھی کسی اسٹوڈنٹ کو اپنی پڑھائی کیلیے رہنمائی درکار ہو ہم حاضر ہوتے ہیں۔
میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ سب اسٹوڈنٹس خود کو خود uplift کرسکیں۔ تعلیم کی اہمیت جان سکیں اور اسکلز پہ کام کرسکیں۔ ہنر کو پہچان سکیں اور اس رستے میں ڈیوائس سے لے کر ایڈوائس تک جو بھی درکار ہو ہم انہیں مہیا کرسکیں۔
میں نے جان لیا کہ ہم سے بڑھ کر کوئی ہماری زمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ ہم ہمارا سب سے بڑا اور اہم ٹاسک ہیں۔۔ ہم ہی اپنے کارواں کے میر ہیں۔ ہم نعرے لگانے کیلیے نہیں بنائے گئے۔ ہماری تخلیق کا مقصد بہت خوبصورت اور بہترین ہے۔
میں خود کو خود سپورٹ کرتی ہوں اور مجھے اپنے اس اسپورٹ سسٹم میں روز کئی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، میں پریشان بھی ہوجاتی ہوں، فیل بھی ہوتی ہوں اور اکثر رنج کی حالت میں چلی جاتی ہوں۔
مگر وہ سمت کا تعین اور ترجیحات کا موجود ہونا۔۔ چوائسس کا معلوم ہونا اور مقصد کو یاد رکھنا۔۔ یہ سب میرے رہنما بن جاتے ہیں۔ ہم معاشرے میں خود اپنے لیے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کیلیے کتنے موجود ہیں، کتنے کام آسکتے ہیں۔۔ یہ سب سے اہم ہے۔
ہم کمیونٹی میں کتنے جڑے ہیں، کتنا کردار نبھا رہے ہیں۔ جسمانی، ذہنی، روحانی اور سب سے بڑھ کر معاشرتی صحت پہ کتنا کام کررہے ہیں یہی وہ پہلو جہاں ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔۔
ہماری عادتیں ہمارے لائف اسٹائل کو بدل دیتی ہیں۔ اور یہ اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اگر وادی سون میں بیٹھے میں خود کو اسپورٹ کرسکتی ہوں تو آپ بھی کرسکتے ہیں۔ ہم سب ممکن ہوجاتے ہیں جب خود پہ کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ اور اپنے حال میں اچھے سے رہنے کی ساری کوششوں پہ یقین کرنے لگتے ہیں۔
ہم ہمیں سپورٹ کرسکیں اور پھر معاشرے کے افراد کو چھوٹی سی ہی سطح پہ اسپورٹ کرسکیں۔۔ وہ فیصلہ جو ہم ہی کرسکتے ہیں۔۔ جسے ہمیں بروقت کرنا ہے۔ کیونکہ جب زمین والے ایک دوسرے کو تھام لیں تو آسمان والا مسکراتا ہے۔ میں نے جانا ہے وادئ سون سکیسر کے پہاڑوں کے پار تک آواز جاسکتی ہے۔۔
یہ میری کہانی ہے، ایک آپکی کہانی ہے جسے آپ نے خود ترتیب دینا ہے۔۔ یہ کہانی شاید کبھی نہ لکھتی مگر یہ اس وقت آپکو پڑھنے کی ضرورت ہے جب آپ میں سے کوئی جانے والوں کیلیے رو رہا ہے تو کوئی آنے والوں کیلیے سر پیٹ رہا ہے۔۔
آپکی کہانی آپکی ہے۔ کوئی آکے اسے بدلے گا نہ ہی اس میں جان ڈالے گا۔۔ یہ قوت اللہ تعالیٰ نے آپکو دی ہے۔ اس نے آپکو ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف سے آزاد کردیا ہے۔ اور یہ کہ اب میں خود اپنی ہیرو ہوں۔
اور یہ آپ بھی کرسکتے ہیں۔۔
ہم سب ممکن ہیں !