Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Anwar Mian
  4. Insan Ki Qadar Karna Seekhen

Insan Ki Qadar Karna Seekhen

انسان کی قدر کرنا سیکھیں

اسلام میں انسانیت کی قدر پر بہت زور دیا گیا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی مذہب ہیں سب نے انسانیت کی قدر پر زور دیا ہے۔ انسانیت کی قدر سب پر فرض ہے۔ ہر مذہب یہ تلقین کرتا ہے کہ انسانیت کی قدر ضروری ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ یعنی سب سے زیادہ معتبر مخلوق انسان ہی ہے۔ میں اگر مغربی دنیا کی بات کرو تو وہاں پر انسان کی بہت قدر کی جاتی ہے۔ انسان کی ہر چیز کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔

انسان کو انسان کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔ انسان کی جو ضروریات ہیں وہ ان کو دی جاتی ہے۔ انسان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے۔ یہ میں غیر مسلموں کی بات کر رہا ہوں جس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ انسان کی اتنی قدر کرتے ہیں کہ جب وہاں رمضان کا مہینہ آتا ہے تو ان کی طرف سے کام میں آسانی پیدا کی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں، انسان ہے اس کی قدر ہم پر لازم ہیں اور سب کچھ مہیا کردیتے ہیں۔

ہم الحمداللہ مسلمان ہیں، اور مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاملات یہاں بلکل مختلف ہیں۔ اسلام نے انسانیت پر جتنا زور دیا ہے ہم سب کو معلوم ہیں لیکن ہم اس پر عمل نہیں کر رہے۔ ہمارے معاشرے میں دین کا پرچار بہت زیادہ ہے لیکن عمل بلکل بھی نہیں ہے۔ ہم دین کی باتیں کرتے تو ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ ہم بسترے لیکر دوسرے کو بتاتے تو ہے لیکن خود عمل نہیں کرتے۔ ہم انسان کی قدر کرتے ہیں لیکن کس قسم کے انسان جو امیر ہوں۔ ہم قدر ہر اس انسان کی کرتے ہیں جو مشہور ہوں۔ ہم قدر ہر اس انسان کی کرتے ہیں جو معاشرے میں مقبول ہوں۔ ہمارے ہاں قدر ان کی ضروری ہے جو امیر ہوں۔

ہمارے معاشرے میں غریب کو بڑی حقیر نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ غریب کو ہم معاشرے کا فرد ہی نہیں سمجھتے۔ غریب کو ہم پاؤں تلے روندتے ہیں۔ یہ ہماری سب سے بڑی بد نصیبی اور بدقسمتی ہے۔ انسان جب غرور پاتا ہے، تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس کو پھر یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ میں ایک انسان بھی ہوں۔ سب رشتے، سب دوست سب کچھ بھول جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نوکر کو بڑی حقیر نظر سے دیکھتے ہیں اور ہم نوکر سے صرف کام لیتے ہیں۔ یعنی ہمارے لئے ہمارا کام صرف ضروری ہے۔ تاکہ ہمیں بس غریب سے کام کرواکر کچھ پیسے مل جائے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ آج میں کسی چھوٹے کام کا مالک ہوں سربراہ ہوں کل میں اس کام کا نوکر بھی ہوسکتا ہوں۔ انسان اگر خود سے کچھ کر سکتا ہے تو اپنے سانس قبضے میں کیوں نہیں لیتا۔

ہم معاشرے میں تھوڑا بہت حیثیت حاصل کرکے بدل جاتے ہیں کہ میں تو کامیاب ہوا ہوں۔ کامیابی یہ نہیں کہ میں دوسرے انسان کی بے قدری کرو۔ اس کی مجبوریوں سے غلط فائدہ اٹھاؤ۔ اس کی مجبوری کی وجہ سے کچھ غلط کام کرواؤ۔ فرعون نعوذ باللہ خدائی کی دعوے کررہا تھا اور یہ کہتا تھا کہ میں تو نعوذ باللہ سب کچھ کرسکتا ہوں۔ فرعون کا حشر ہم سب کے سامنے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے تباہ کردیا۔

انسان اگر کوئی کام کرتا ہے جو کہ مشکل بھی ہو وہ کسی مجبوری کی تحت کرتا ہے۔ اگر انسان کی بس میں ہوتا تو کوئی بھی انسان ہر وہ کام نہ کرتا جسے وہ پسند نہ کرتا لیکن زیادہ تر کام انسان کچھ وجوہات کی وجہ سے کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اگر آج بادشاہ ہے تو کل نوکر ہونگے۔ وقت بدلنے میں ایک بھی سیکنڈ نہیں لگتا۔ انسان کیا ہے پل میں تندرست پل میں بیمار۔ ہم اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ہاتھوں میں کوئی طاقت نہیں یہ تو ہماری غلط فہمیاں ہیں کہ ہم اپنے پیسوں کو، جائیداد کو، گاڑی کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ یہ سب ہماری غلط فہمیاں ہیں۔ ہمیں ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم مسلمان ہیں ہمیں قرآن اور حدیث کو دیکھنا پڑے گا۔ جس نے بھی کبھی غرور کی ہے چاہے وہ غرور کسی کاروبار کا ہوں، جائیداد کا ہوں، پیسے کا ہوں، کسی عہدے کاہوں وہ سب تباہ ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ عارضی ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ سب کچھ یہاں پر عارضی ہے۔ یہ پوری دنیا عارضی ہے تو ہم کیا چیز ہیں۔ ہمیں بس یہاں رہ کر ایک دوسرے کی قدر کرنی چاہیئے۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed