Talash
تلاش
مجھے ایک ایسی بہو کی تلاش ہے جو میرے جیسی نہ ہو،میرا بیٹا بلال ماشااللہ 24 کا ہو گیا ہے۔ڈگری ہو گئی ہے اس کی اچھی جاب بھی جلد ہی ہو جائے گی،بس اب اس کی شادی کروں گی۔کئی لڑکیاں ہیں، نظر میں بہنوں، بھابیوں کی بھی خواہش ہے کہ ان کی بچیوں میں سے کسی کی بیٹی پہ ہاتھ رکھ دوں ۔"بلکہ بہن تو ابھی پچھلی مرتبہ بھی آئی تو باتوں، باتوں میں کہ رہی تھی کہ" صالحہ آپا؛ میری بانو بالکل آپ جیسی ہے،جس گھر جائے گی گھر روشن ہو جائے گا "لیکن میں اسے کیسے بتاؤں کہ مجھے میری جیسی بہو بالکل بھی نہیں چاہیے، زیادہ لمبی کہانی نہیں ، اگر تھوڑا وقت ہے تو سنا دیتی ہوں۔میں گاؤں میں رہتی تھی، بہت بڑے باپ کی بہت پیاری اور خوبصورت ترین بیٹی ،بہت سارے لوگ رشتے کے خواہشمند تھے ۔
جب 19 کی ہوئی تو گھر میں میرے رشتے کی بات چیت کیلئے اماں کی دور پار کی کزن ہمارے گھر آ گئیں ،وہ خود بیوہ تھیں ، دانیال ان کا ایک ہی بیٹا تھا، دونوں ماں بیٹا بہت سلجھے ہوئے تھے۔دانیال کو دیکھ کر دل پہلی نظر میں اسی کا ہو گیا تھا۔آنٹی جانے سے پہلے مجھے ملنے کیلئے آئیں تو میں ان کی شخصیت سے مرعوب سی ہو گئی ۔انہوں نے بڑا نفیس لباس اور قیمتی شال اوڑھی ہوئی تھی ،انکی شخصیت میں ایک عجیب قسم کا رعب، دبدبہ وقار تھا۔بھینی بھینی خوشبو نے ان کے وجود کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ویسے تو خیر میں خود بھی لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ایک تھی۔لیکن ان کے سامنے مجھے خواہ مخواہ کا احساس کمتری ہوگیا۔
ان کے جانے کے بعد اماں اور ابا کی بڑے بھائی کے ساتھ بات چیت سے علم ہوا کہ آنٹی کے ساتھ ان کے خاوند نے بڑی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد پسند کی شادی کی تھی۔لیکن ان کی شادی کے صرف دوسال بعد ایک حادثے میں اُن کا انتقال ہو گیا تھا۔آنٹی کا گھرانہ پڑھا لکھا تھا اور وہ خود بھی ایک ہائی سکول میں سائنس ٹیچر تھیں ۔دانیال انکا اکیلا بیٹا تھا۔بیوگی کے بعد انہوں نے بڑی ہمت اور جرا ت سے بغیر کسی کی مدد کے اکیلے ہی سارا وقت گزارا۔بیٹے کو اعلیٰ تعلیم اور تربیت سے پال پوس کے یہاں تک پہنچایا۔اب دانیال ایک نہایت اعلیٰ جاب کررہا تھا۔ شہر کے بیچوں بیچ وہ گھر جو انکے شوہر کی زندگی میں سادہ سا تھا اب وہ ایک سجا سجایا گھر تھا۔
جلد ہی رشتے کی ہاں ہو گئی ،میں بہت سارے خواب آنکھوں میں سجائے جب گاڑی سے اتری تو میری ساس نے محبت سے میرا استقبال کیا۔رسموں سے فراغت ہوئی، تو مجھے میرے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔سب کچھ مجھے خواب لگ رہا تھا۔اللہ نے مجھے گاؤں سے اُٹھا شہر کی بہترین سوسائٹی کے بہترین گھر میں بٹھا دیا۔دانیال نے کمرے میں آکر سلام کیا اور مجھے رونمائی کا تحفہ دیا،بڑا خوبصورت بریسلیٹ تھاانہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کے میرے بازو پہ باندھ دیا۔میں نے کہا "شکریہ، بہت پیارا ہے، ،دانیال نے کہا امی کی پسند بہت شاندار ہے، ،اور میرے اندر پہلا چھناکا ہوا،دوسرا چھناکا تب ہوا جب انہوں نے کہا"یار لوگ تو پہلی رات بیوی کو ایک فرض نبھانے کیلئے کہ دیتے ہیں کہ میرے والدین کا خیال رکھنا۔
لیکن میں تمہیں اپنے دل کی گہرائیوں سے کہ رہا ہوں کہ میری امی میں سچ مچ میری جان ہے، ان کی زندگی بھر کی محنت کے بعد آج ہم لوگ اس مقام تک پہنچے ہیں۔امی نے پوری زندگی بڑی خودداری اور بہادری سے گزاری ہے ۔ اب ان کے آرام کا وقت ہے، مجھے امید ہے کہ تم میرے ساتھ تعاون کرو گی، اس کے بعد " امی نامہ، ، تو ختم ہو گیا لیکن میرے اندر ایک گانٹھ سی پڑ گئی ساس کے حوالے سے،اگلے دن ولیمہ تھا،جب جانے کیلئے نکلی تو گاڑی میں میرے سے پہلے میری ساس فرنٹ سیٹ پہ براجمان تھیں،ایک اور چھناکا،شادی کے شروع کے صرف تین ماہ میں نے کچھ لحاظ کیا،اس کے بعد میں نے ہر طریقے سے آنٹی کو نیچا دکھانے کی لا شعوری کوششیں شروع کر دیں تھیں۔
گاڑی میں ان کے آنے سے پہلے جا بیٹھتی اور وہ مجھے آگے ہی بیٹھنے کا کہ کے خود پیچھے بیٹھ جاتیں۔انہیں سالن میں شوربہ چاہئے ہوتا تھا میں جان بوجھ کے سالن بھونا ہوا بنا دیتی انہیں لاؤنج میں تازہ ہوا پسند تھی میں دروازے بند کر کے اے سی چلا دیتی تھی۔انہیں پینے کیلئے اُبلا ہوا پانی چاہیے ہوتا تھا، میں ملازمہ سے کہ کے سادہ پانی رکھوا دیتی،انہیں دوائیاں اپنے ہاتھ کی پہنچ میں چاہیے تھیں، میں جان بوجھ کے دور رکھ دیتی تھی۔ہر وقت دانیال کا دل ان کی والدہ کی طرف سے برا کرنے کی کوشش کرتی رہتی، لیکن میری ہزار کوشش کے باوجود دانیال کی جان اپنی امی میں ہی اٹکی رہتی تھی۔آنٹی نے پتہ نہیں اتنا صبر کہاں سے لیا تھا کہ نہ تو مجھے کچھ کہتیں اور نہ ہی دانیال کو کچھ بتاتیں۔
سال کے بعد اللہ نے مجھے بیٹےسے نواز دیا۔ابھی بلال کی پہلی سالگرہ کو کچھ دن گزرے تھے جب اچانک آنٹی کی طبیعت خراب ہو گئی۔دانیال انہیں لے کے ہسپتال چلے گئے۔وہ دن ایسے تھے کہ دانیال کی پریشانی میرے سے دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ہسپتال جانے کے تیسرے دن آنٹی کی وفات ہو گئی ،میں اُنکی وفات پہ دکھی کم، اور خوش زیادہ تھی کہ اب دانیال سارے کا سارا میرا ہے۔میری ساس کو کینسر تھا،میری منگنی سے کچھ مہینے قبل انکا کینسر تشخیص ہوا تھا لیکن مجھے کسی نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔آنٹی کا اپنا فیصلہ تھا کہ نہ تو میری اس بیماری کا چرچا کرنا ہے اور نہ ہی اب وقت تھا کہ اس بیماری کا علاج کروایا جا سکے۔ کیونکہ جب علم ہوا تب تک وہ سارے جسم میں پھیل چکا تھا۔
بس یہی تھا کہ ان کی جتنی زندگی ہے بس وہ سکون سے گزر جائے۔جس وجہ سے دانیال ان کا حد سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ان کے جانے کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ دانیال کو وآپس زندگی کی طرف لا سکوں ،لیکن شاید کچھ فیصلے قدرت نے کر دیے ہوتے ہیں۔دانیال نے اپنی امی کا دکھ، دل سے لگا لیا تھا۔میرے محبوب شوہر پورا پورا دن ایک ہی نقطے کو بیٹھ کے گھورتے رہتے،میری محبت، اور بیٹے کی پیاری پیاری حرکتیں ، کچھ بھی ان کے دل کو متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ایک سال کے اندر، اندر وہ سوکھ کے کانٹا ہو گئے،بے شمار ٹیسٹ ہوئے لیکن کسی بیماری کا کوئی سراغ نہیں ملااور وہ جو انہوں نے کہاتھا نا،کہ میری جان سچ مچ پہ میری امی کے اندر ہے،وہ انہوں نے سچ ہی کہا تھا۔
اپنی امی کے جانے کے ٹھیک ایک سال کے بعد عین اپنی امی کی برسی والے دن وہ میرے ہاتھوں سے ہاتھ چھڑا کے چلے گئے۔مجھ پہ غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے،میری امی آئیں کچھ دن میرے ساتھ رُکیں ،پھر وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئیں۔لیکن میرا دل نہیں لگا،میں وآپس اپنے گھر جانا چاہتی تھی ۔میرا گھر میرے محبوب شوہر والا گھر، جہاں میں محبت کے معنی سے روشناس ہوئی تھی۔جب میں اپنے گھر واپس آئی تو دل کھول کے روئی، اتنا روئی کہ معصوم بلال ڈر کے میری ٹانگوں سے چمٹ گیا۔اپنی ساس کے کمرے میں گئی تو یوں لگا جیسے ابھی ابھی اپنے سنگل بیڈ سے اُٹھ کے واش روم گئی ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ ایک دن بلال بہت ضد کررہا تھا کہ آج دادو کے بیڈ پہ سونا ہے تو بیڈ پہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس کے سوجانے کے بعد ہم اسے وآپس اپنے کمرے میں لے آئے تو دانیال نے مجھے بتایا"بابا کی وفات کے بعد امی نے اپنے کمرے سے ڈبل بیڈ نکلوا دیا تھااور کمرے کی ساری ترتیب بدل دی تھی، کیونکہ انہیں پرانی ترتیب میں بابا کی یاد بہت زیادہ ستاتی تھی۔جب میں اپنے کمرے میں گئی تو لگا جیسے دانیال آفس سے ابھی لوٹ آئیں گے اور زندگی شائد پھر پہلے جیسی رواں دواں ہو جائے گی ۔امی کچھ دن رہ کے واپس چلی گئیں ۔میں نے بھی اپنی ساس کی طرح اپنے کمرے کی ترتیب بدل دی ہے، ڈبل بیڈ کی جگہ سنگل بیڈ لگا دیا ہےیوں لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔
مجھے اپنے بیٹے، اپنے شہزادے، اپنے بلال کی جان بہت پیاری ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ بھی مجھے اسی طرح پیار کرتا ہے جیسے اس کا باپ اپنی والدہ سے کرتا تھا،یہ نہ ہو کہ میرے گھر آنے والی میرے بارے میں اسی طرح سوچے جس طرح میں اپنی ساس کے بارے میں سوچتی تھی ۔مجھے خود تو مرنے سے ڈر نہیں لگتا،لیکن میرے بلال کو اللہ لمبی زندگی عطا فرمائے، اس کے بارے میں تو ایسے سوچنا بھی میرے لیے ناممکن ہے۔مجھے ایک ایسی لڑکی کی تلاش ہے جو میرے جیسی نہ ہو۔