Hazoor e Haq Se Payam Aya (4)
حضورِ حق سے پیام آیا (4)
نواسی کو جہاں تھوڑی سی جگہ ملی وہاں اس نے اپنی گڑیا کاگھر سجا لیا اورمیں اس کی قسمت پہ رشک کررہی تھی۔ جس کو کھیلنے کیلئے پاک اللہ نے خانہ کعبہ میں جگہ عطا کی تھی۔ اور میری آنکھوں میں ان باتوں کو یاد کر کر کے آنسو اور ہونٹوں پہ الحمداللہ تھا جو باتیں لوگ مجھے سناتے تھے کہ یہ بیٹی کا رشتہ کہاں کر دیا۔ بےروزگار لڑکے کو بیٹی دیدی ہم نے۔ (شادی کے وقت ابھی تعلیم جاری تھی)۔ جب کہ میں نے اس گھرانے کی شرافت دیکھی تھی، دولت نہیں۔
احمد البتہ بابا کے کندھوں پہ طواف کے چکر لگا رہا تھا۔ ہم سب عمرہ سے فارغ ہوے تو غار حرا جانے کا پروگرام بن گیا۔ ہم لوگ غلطی سے غار ثور والے راستے پہ چڑھ گیے۔ بہت ٹوٹا پھوٹا راستہ اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے 1400 سال پہلے نبی پاک ﷺکے دور میں آگۓہوں۔ ابھی کسی طرف سے کوئی صحابی تشریف لائیں گے۔ یہ سفر جو اتفاقیہ کیا اس نے دل پہ بہت گہرا اثر کیا۔ لگتا تھا ابھی ابھی یہاں کسی جگہ سے آپ ﷺکی سواری گزری ہوگی۔ ضرور کسی پتھر پہ انکا مبارک پاؤں لگاہوگا۔
وہاں سے میں نے ایک پتھر اٹھایا اپنے تیمم کیلئے اور اللہ پاک، بابر کو بےحساب برکتوں سے نوازے کہ وہ اسے اپنے سامان میں پاکستان لے کے آیا۔ کیونکہ میرے پاس وزن کی گنجائش نہیں تھی۔ اسکے بعد غار حرا کا راستہ پوچھا تو صحیح سڑک پہ سفر شروع کیا۔ ایک بات بڑی عجیب لگی کہ پورا مکہ شریف اور مدینہ پاک میں صفائی اس درجہ کی ہے جسکی مثال نہیں ملتی لیکن یہاں غار حرا کے راستے پہ صفائی کا وہ معیار نظر نہ آیا۔ غار حرا کا راستہ بہت مشکل تھا جسے طے کرنا میرے لیے ناممکن تھا تو پھر میری وجہ سے باقیوں کا پروگرام بھی منسوخ کرنا پڑا۔
لیکن لوگ ماشااللہ بڑی ہمت سے وہاں جا رہے تھے اور ہمیں نیچے سے انکے چھوٹے چھوٹے وجود دکھائی دے رہے تھے۔ کہتےہیں کہ آپ ﷺکے دور میں غار حرا سے خانہ کعبہ سامنے نظر آتا تھا۔ واللہ اعلم باالصواب۔ اس کے بعد واپسی کیلئے نکلےہمارے گھر سے مکہ تک کا سفر لگ بھگ 1000 کلومیٹر کاہے اورہم نےآنے والے روزوں کی تیاری بھی کرنی تھی۔
لیکن ابھی ایک اور مرتبہ مزید آنے کا پروگرام تھا تو دل کے اندر ایک سکون تھا۔ یوں دوبارہ آنے کے پروگرام کے ساتھ القسیم کا سفر شروع کیا۔ گھر پہنچ کے میں آرام کرنے آگئ۔ کمرے میں فاطمہ کو سخت فکر تھی اپنے بقایا gifts کی۔ بیٹی کو اپنے آم لیموں اور کریلوں والے اچار کی۔ جبکہ داماد کے آم توہم راستہ میں ہی کھا چکے تھے۔ احمد سے ابھی کوئی دوستی نہں ہو سکی تھی۔ لیکن جو بات فاطمہ کہتی اسکو دہرانا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔
زندگی کے خوبصورت ترین روزے تھے جو مدینہ پاک میں گزارے اور بریدہ القسیم میں گزارے۔ بریدہ کے روزے کیا تھے کہ پہلا روزہ رکھا فجر پڑھی تلاوت کی اور سب سو گۓ۔ اٹھے تو ظہر کا ٹائم تھا بچیاں نماز پڑھ کے کچن چلی گئ اور میں پاکستان چھوٹی بیٹی اور شوہر سے بات کرنا شروع ہو گئ۔ ان دنوں میرے دونوں بیٹے پاکستان سے باہر اپنی تعلیم کے سلسلے میں تھے تو ان سے کم کم بات ہوتی۔
سب سے اچھا وہ ٹایم ہوتا جب ہم گھر کے سامنے والی مسجد میں تراویح پڑھنے جاتے۔ وہاں خواتین عبایا، یا گاؤن میں ہوتیں ہر نمازی عورت کے سامنے مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے پانی کی سیل بند بوتل پڑی ہوتی ایر کنڈیشنر بھرپور ٹھنڈک دے رہاہوتااور بہت مزے سےہم تراویح پڑھتے۔ جب میں اور منتہی پہلے دن کی تراویح پڑھ کے گھر پہنچے تو فاطمہ رو رو کے بےحال تھی کہ لالہ مجھے چھوڑ کے پاکستان چلی گئ ہیں۔ اگلے دن ہم اسے بھی ساتھ لے کے گۓ تاکہ اسکا رونا تو بندہو۔
رمضان شریف کے جتنے روزے بریدہ میں رکھے یہی دیکھا کہ بازار ساری رات کھلے رہتے تھے لوگ خریدوفروخت کرتے رہتے اور سحری کے وقت گھر جاتے۔ اکثر لوگ افطاری گھر سے باہر کرتے تھے تو کچھ دفع ہم بھی افطاری گھر سے پکا کے لے گۓاور باہر جا کے روزہ افطار کیا۔ بریدہ کا رمضان المبارک بھی بہت پیارا تھا لیکن ہمیں مدینہ پاک جاکے روزے رکھنے کا بہت شدت سے انتظار تھا۔ یہاں تک کہ آخری عشرہ شروع ہو گیا۔
اس دفع ہماری بکنگ، ، معراج طیبہ، ، میں تھی۔ اس ہوٹل کی دو باتیں بہت اچھی تھیں ایک تو یہ مسجد نبوی سے اتنا قریب تھا کہ پیدل بھی جا سکتے تھےا ور دوسری بات یہ کہ اسکی کھڑکی سے جھانک کے دیکھتے تو بالکل ساتھ ہی جنت البقیع نظر آرہاہوتا تھا جسکو دیکھ کے ایمان تازہ ہو جاتا تھا۔ مسجد نبوی کے رمضان المبارک کی تو کیاہی بات تھی۔ ہم لوگ گھر سے سحری کھا کے اور سارا دن کے قیام کے حساب سے تیاری کر کے آتے تھے۔ عموماً میں تو سیدھی بلڈنگ کے اندر جایا کرتی البتہ منتہی بہن اور بچوں کے ساتھ باہرہی رک جاتی۔
سارا دن ہم لوگ عبادت کرتے۔ میں نے اپنی زندگی میں قضا نمازوں کی ادائیگی کی کوشش کی اور نفل حاجت پڑھتی بچوں کیلئے۔ اسکے علاوہ جن لوگوں نے دعائیں کہی تھیں وہ سب میں نے ایک ورق پہ لکھ لی تھیں۔ جونہی وقت ملتا وہ ورق نکال لیتی اور سب کی دعائیں بڑی عاجزی سے رب کے حضور پیش کرتی۔
خانہ کعبہ میں بھی طواف کے دوران میرے ساتھ ایسا بہت ہوتا کہ مجھے اپنے جاننے والوں کے چہرے دکھائی دیتے۔ یعنی مجھے ایسے لوگوں کی مشابہت والے لوگ نظرآتے جو میرے ملنے جاننے والےہوتے۔ تو میں ہمیشہ یہ سوچتی کہ اللہ نے اگر کسی سے ملتی جلتی شکل دکھا کے کسی کی طرف میرا دہان پھیراہے تو ضرور اس کیلئے دعا کرنی چاہیے۔ اس طرح ان جاننے والے لوگوں کیلئے بھی دعا کرتی۔ ویسے بتاتی چلوں دعائیں دینا میری زندگی کا ایک اہم کام ہے۔
افطار سے کچھ دیر پہلے دسترخوان بچھ جاتے۔ ہر انسان کے سامنے۔ دہی، جوس کھجور اور ایک خاص قسم کی روٹی یا بریڈ کہ لیں پانی اور پھل وغیرہ لگا دے جاتے۔ بلڈنگ کے اندر مخصوص کھانا ملتاہے جس سے گندگی کم سے کم ہو۔ البتہ باہر والے دسترخوان پہ لوگ خدمت کی نیت سے گھروں سے زبردست قسم کا کھانا بنا کے لے آتے جس میں تندور کی روٹیاں پاکستانی سالن، بریانی اور مختلف میٹھی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔ وہاں کی انتظامیہ کی کوشش ہوتی تھی کہ مخصوص کھانا دیا جاے تو پھر لوگ صحن سے تھوڑا باہر دسترخوان بچھا کے اپنے اپنے ملکوں کے لوگوں کیلئے کھانا لگاتے تھے۔ وہاں جتنے بھی لوگ ہوتے تھے سب کو پیٹ بھر کے کھانا ملتا تھا اور لوگ گھروں میں بھی لے کے جاتے تھے۔ اسی طرح سحری کا انتظام ہوتا۔ اگر تھوڑا باہر آجائیں تو بڑی ورائٹی میں کھانا ملتا البتہ اندر والاکھانا جسم کو طاقت زیادہ دیتا تھا۔
ایک دن بچیوں نے کہا کہ آج توہم ٹاپ ٹیں top ten جائیں گے۔ میں بھی ساتھ ہی چلی گیئاور میرا خیال ہے کہ میری شاپنگ ان سے زیادہ تھی۔ ٹاپ ٹین پہ بہت ورائیٹی ہے چیزوں کی۔ ریڈی میڈ ملبوسات بچون کے بڑوں کے، سویٹر، پرس، میک اپ جوتے۔ غرض یہ کہ ہر چیز مناسب قیمت اور اعلیٰ کوالٹی کی۔ مدینہ میں مسجد نبوی اور مسجد قبا کے بعد top ten بھی میری پسندیدہ جگہ ہے۔
اس دن غزوہ احد پہ بھی گیۓ۔ شہدا کی قبروں کو اور احد کی پہاڑی کو بھی گھوم پھر کے دیکھا۔ میرے گھٹنوں میں درد کی وجہ سے کم کم چلتی ہوں بچیوں نے البتہ سارا گھوم پھر کے دیکھا اور تصاویر بھی بنائیں۔ مدینہ میں بہت سے اچھے اچھےہوٹل ہیں جن میں مطاعم عثمانیہ کا کھانا مجھے بہت پسند آیا۔ البیک اور مزید الفوزان۔ بہت اچھا کھانا پیش کرتےہیں لیکن قیمت اور کوالٹی اور پاکستانی کھانون کے لحاظ سے مطاعم عثمانیہ مجھے پسند آیا۔
اکثر اوقات ہم جب مدینہ گھوم رہےہوتے تو اسی مناسبت سے نعتیں لگا لیتے اور مدینہ پاک میں گھومنے کا مزہ دوبالاہو جاتا۔ یہاں تک کہ 27 رمضان کی رات، عبادت کی رات آگئ۔ ہم لوگ جلدی گھر (ہوٹل) سے نکلے تا کہ مناسب جگہ مل سکے لیکن ہمارے پہنچنے تک اتنا رش ہو چکا تھا کہ صحن سے بھی باہر جو صفیں مزید لگائی گئیں تھیں وہاں جگہ ملی۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔۔ بچوں کی چیزیں دائیں بائیں ترتیب سے رکھیں۔
فاطمہ تو شروع سے دھیمے مزاج کی بچی ہے لیکن احمد تو شرارتوں کا پوٹلاہے۔ چیخوں پہ چیخیں مار رہا تھا۔ آتی جاتی خواتین کا دوپٹہ، چادر گاون جوہاتھ میں آجاتا پکڑ لیتا اور چھوڑتاہی نہ۔ ہمارے سے اگلی صف میں کچھ عورتیں گاون میں تھیں ان میں سے ایک عورت مڑ مڑ کے غصے سےہمیں گھور رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اس خاتون نے پیچھے مڑ کے عربی میں ہمیں کہا آپ لوگ کسی اور جگہ جائیں یہاں سے۔ جس پر میں نے آہستہ سے کہا
We are five۔۔۔۔ how can we leave this place with little kids۔۔۔۔ U r alone u should leave this placeمیری بات کی تو انہیں سمجھ آئی یا نہیں لیکن احمد کو لگا کہ شاید وہ میری ماما کو ڈانٹ رہی ہیں تو اس نے دونوں گھٹنوں پہ کھڑےہو کے اشاروں کی انٹر نیشنل زبان میں دونوں ہاتھ ہلاہلا اپنی بولی میں کچھ ایسی باتیں سنائیں کہ ارد گرد کی ساری خواتیں بے اختیارہنسنا شروع ہو گییں۔
تھوڑی دیر میں عشا کی نماز شروع ہوگیئ۔ اور پھر وہ عبادت کی رات۔ مسجد نبوی کے سامنے قیام اوررات کی ٹھنڈی ہوائیں۔ کیاہی خوبصورت اور روح پرور ماحول تھا۔ ہم لوگوں نے بہت دل سے عبادت کی اور امام صاحب نے بڑے جذبہ سے رو رو کے دعا کروائی۔ ساری سمجھ تو نہ آئی لیکن کافی حد تک سمجھ آ رہی تھی۔
سحری وہیں پہ کی۔ فجر کی نماز پڑہی اور گھر آکے سو گیۓ۔ چاند رات کو منتہی اور مریم کی خواہش تھی کہ مدینہ پاک کے بازاروں میں گھومیں۔ میں نے کہا کہ اپ لوگ جائیں۔ فاطمہ کو بھی لے جائیں اور احمد کو میرے پاس چھوڑ دیں۔
جاری ہے