Hazoor e Haq Se Payam Aya (2)
حضورِ حق سے پیام آیا (2)
بچوں نےہمیں لینے کیلئے آنے سے پہلے پاکستان ھاوس میں بکنگ، کروالی تھی۔جب پاکستان ہاوس پہنچے تو لگا سچ پہ پاکستان میں پہنچ گیے ھوں۔استقبالیہ میں پاکستانی چینل چل رھا تھا دیوار پہ تین گھڑیاں ٹائم بتا رہی تھیں۔ایک پہ پاکستان کا وقت دوسری پہ سعودیہ کا وقت نظر آرھا تھا۔تیسری کا پتہ نہ چل سکا شائد انڈیا کا ھو گا۔کمرے میں پہنچے سامان رکھا اور جب غسل خانے کی ٹونٹی نے کھلنے کے بعد بند ھونےسے انکار کر دیاتو پاکستان ھاوس پہ بہت پیار آیا صحیح پاکستان والی ھی feelings آرہی تھیں۔خیر فون کر کے انتظامیہ کو بتایا اور دس منٹ میں ٹونٹی درست ہو گئی۔
بیٹی نے کہا کہ امی ناشتہ کر کے تھوڑا آرام کر لیں پھر مسجد نبوی چلتے ھیں۔فاطمہ تو لالہ کی جان بنی ھوئی تھی اور چھوٹا مجھے دیکھ کے شرما شرما کے دونوں بازووں کو اوپر اٹھا کے منہ پہ رکھ رھا تھا۔فجر کی نماز میں نے پہلے ھی پڑھ لی تھی۔کچھ آرام کر کے ناشتہ سے فارغ ھو کے مسجد نبوی کیلئے نکل پڑے۔جب وھاں پہنچے تو اسی بچے کی آواز میں تلاوت لگی ھوئی تھی۔جوپچھلی دفعہ سنی تو لگتا تھا، کہ یہ آواز جا کے دل میں اتر گئی ھو اور جب واپس جارہی تھی تو میں سوچتی تھی کہ یہ گلیاں یہ بازار، یہ مدینہ کے کھجوروں کے باغات اور یہ اس بچے کی دل کو کھینچ لینے والی اواز کیا میں پھر کبھی نہ سن پاوں گی۔لیکن اللہ نے پھر بلا لیا اور مجھے لگا کہ میں تو ادھرسے کبھی گئی ھی نہیں تھی۔
وقت پھر وھیں سے شروع ھو گیا جہاں میں اسے چھوڑ کے گئی تھی۔اللہ کی اتنی رحمتیں ۔ اتنی مہربانیاں اتنے کرم۔فبای آلا ربکما تکزبن۔مسجد نبوی کی حدود میں داخل ھوے تو بڑی بیٹی نے یاد کروایا کہ دعا پڑھیں، اللھما فتح لی ابواب رحمتک پھر دو نفل تحیۃ المسجد کے بھی پڑھ لیں۔مسجد نبوی کی چھتریاں کھلی ھوئی تھیں۔پنکھے پانی والی پھواروں کے ساتھ ھوا پھینک رھے تھے۔ایک خوبصورت سکون کا احساس تھا ابھی ظہر کی نماز میں وقت تھا۔شلوار قمیض میں لوگ بہت زیادہ نظر آرھے تھے۔
مرد، مردوں والی طرف اور دونوں بہنیں بچوں کے ساتھ عورتوں والی طرف آگیے۔منتہی بڑی بہن اور بچوں کے ساتھ صحن میں رک گئیں اور میں مسجد کے صحن کو عبور کر کے باب علی سے اندر داخل ھونے کیلیے آگئی۔وھاں ڈیوٹی پہ موجود خادمائیں تمام خواتین کی تلاشی لے رہی تھیں اور جنکے پاس تصویر بنانے والا موبائل فون تھا وہ اپنے پاس رکھ رہی تھیں۔مجھے نہیں پتہ کہ اسکی واپسی کا کیا طریقہ تھا لیکن میرے پاس موبائل انہیں نہ ملا۔یہاں کچھ باتیں ایسی بھی بتانا چاہتی ھوں جو شاید کسی اور کا بھلا کر سکیں۔
باب علی اور تمام ابواب کے ایک سے زیادہ دروازے ہیں۔یعنی اگر میں باب علی سے داخل ھوتی ھوں تو مجھے پتہ ھونا چاہیے کہ باب علی 1 سے جارہی ھوں یا 2 سے یا باب علی 3 سے۔تاکہ اگر کسی ضرورت کے تحت باھر آئیں تو دوبارہ صحیح دروازے سے داخل ھوں۔دوسری بات یہ کہ مسجد کے اند لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ریک پڑے ھوے ھوتے ھیں اگر وھاں اپنا کوئی سامان رکھیں تو انکے اوپر بھی نمبر لگے ھوے ھوتے ھیں وہ یاد رکھیں۔کیونکہ ھر نماز کے بعد جونہی صفائی شروع ھوتی ھے وہ ریک کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ھیں۔
میں مسجد نبوی کی عمارت کے اندر آگئی۔یوں لگا جیسے کسی بہت شفیق ھستی نے سر پہ ھاتھ رکھ دیا ھو۔جیسے بچہ ماں کی گود میں اجاے۔جیسے تھکے ھوے مسافر کو بڑی مشقت بھرے سفر کے بعد بہت آرام دہ جگہ پہ آرام کرنے کا موقعہ مل جاے۔مسجد کے ستونوں سے وہی ٹھنڈی ھوا نکل کے آرہی تھی جو پچھلی دفعہ محسوس کر کے سکون آ جاتا تھا۔یوں لگ رھا تھا کہ میں تو کبھی واپس گئی ھی نہیں تھی۔
ابھی نماز میں وقت تھا تو میں نے نفل حاجت پڑھنے شروع کئیے۔۔ بڑے بچے سے شروع ھوئی اور سب سے چھوٹی بیٹی تک۔ھر دو نفل کے بعد اللہ سے بڑی عاجزی سے بچوں کی دین دنیا کی کامیابیوں کی دعاییں کی۔اتنے میں ازان شروع ھو گئی۔چھوٹے بچوں والی خواتین کی صفیں جاتے ساتھ شروع ھو جاتی ھیں پھر جیسے جیسے روضۂ مبارک کے قریب پہنچتے جاتے ھیں زیادہ خاموشی اور باادب ماحول بنتا جاتا ھے اور روضۂ مبارک کے قریب ترین ایسی خواتین ھوتی ھیں جنکے ساتھ بچے نہیں ھوتے تو شور بھی نہ ھونے کے برابر ھوتا ھے میں بھی وھاں تک چلی گئی۔
امام صاحب نے اقامت کے بعد اللہ اکبر کہ کے نماز شروع کی۔شروع میں تو سمجھ نہیں اتی تھی کہ باجماعت نماز کیسے پڑھتے ھیں لیکن اب دوسری دفعہ تھی تو اب کافی بہتر نماز ھو گئی تھی بلکہ اب تو اگر کسی میں کوئی کمی بیشی نظر آتی تو انکی بھی اصلاح کرنے کی کو شش کرتی۔نماز ختم ھوئی تو ساتھ ھی جنازے کا اعلان ھو گیا۔مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں۔ھر دو جگہ اکثر نماز کے ساتھ جنازے بھی ھوتے ھیں۔
نماز ختم ھوئی تو منتہی بڑی بہن کے ساتھ اندر آگئی۔بچوں کو انکے بابا کے پاس چھوڑ دیا تھا۔کیونکہ ظہر کے بعد روضہ مبارک کھلتا تو ھم نےسلام پیش کرنا تھا۔ میں نے ایک کرسی پکڑ لی تھی تاکہ جب ریاض الجنہ میں نفل پڑھنے کا موقعہ ملے تو کرسی پہ بیٹھ کے نفل پڑھ سکوں۔ جیسے ھی روضہ مبارک کھلا خواتین کی بھگدڑ اور شور، شروع ھو گیا۔ڈیوٹی والی خادمائیں، عورتوں کو گائیڈ کر رھی تھیں میں بھی اپنی فولڈنگ کرسی اٹھاے ھجوم کے سیلاب میں بہتی ھوئی ریاض الجنہ پہنچ گئی تو بیٹی نے کال کی کہ امی ھم آپکے پیچھے ھی ھیں مڑ کے دیکھا تو دونوں بیٹیاں پیچھے ساتھ ھی تھیں اور بڑی والی نے میرے لیے کرسی بھی پکڑی ھوئی تھی۔
اللہ نے میرے سے وہ کرسی اس لئیے اٹھوائی تھی کہ وھان ایک بوڑھی اور اکیلی عورت کو اسکی ضرورت تھی۔جب بیٹی نے بتایا کہ ہم آپ کیلئے کرسی ساتھ لے کے آئے ہیں تو وہ کرسی میں نے اس اکیلی، بوڑھی خاتون کو دیدی جس کی کرسی لے کے آنے کا وسیلہ اللہ نے مجھے بنایا تھا۔اور اس نے ہمیں ڈھیروں دعائیں دیں ۔یہاں ڈیوٹی والی خواتین خاموش رہنے کی تلقین کر رہی تھیں۔پھر بھی عورتیں درود پاک کا ورد اور نعت خوانی بھی کر رہی تھیں۔
ریاض الجنہ کے بارے میں کہتے ھیں کہ یہ جنت کا ٹکڑا ھے اسے زمیں پہ ھمارے پیارے نبیﷺ کیلئے اتارا گیا ھے اور جتنی جگہ پہ سبز قالین ھیں وھاں تک ریاض الجنہ ھے۔یہاں نفل پڑھنے کی بہت فضیلت ھے جونہی مجھے تھوڑی سی جگہ نظر آئی بیٹی نے وھاں کرسی بچھادی اور یقین کریں کہ ایسا لگ رھا تھا کہ کچھ نادیدہ لوگوں نے کرسی کو گھیرا ڈال لیا ھے۔اتنے رش میں، میں نے ایسے سکون سے نفل پڑھے جیسے میں اپنے گھر میں پڑھتی ھوں ۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ رھا جو کہ اس سفر کا تو نہیں لیکن آپکے لیے اسے بھی قلمبند کر رہی۔
جب میں پہلی دفعہ مسجد نبوی آئی اور سلام پیش کرنے کھڑی ھوئی تو بڑی بیٹی نے ھر قدم پہ مجھے بتایا کہ کس طریقے سے سلام پیش کرنا۔اسلام علیک ایھاالنبی کے الفاظ سے سلام پیش کررہی ھی تھی تو ایسے ھی میرے زہن میں خیال آیا کہ شائد میں حجرہ مبارک کے عین سامنے ھوں بھی یا نہیں۔شاید میں صحیح مقام پہ کھڑی بھی ھوں یا نہیں جب میں ایسا سوچ رھی تھی تو اچانک اوپر سے چھت ھٹنا شروع ھو گئی اور چند منٹ کے اندر چھت مکمل ھٹ گئی اور سامنے گنبد خضرا نظر انا شروع ھو گیا۔
سبحان اللہ۔اللہ پاک کیسے کیسے اپنے بندوں کو دکھاتا ھے۔کہ اے میری بندی۔تو میرے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺکے روضہ مبارک پہ عین اس جگہ کھڑی ھے جہان میرے حبیب کا ڈیرہ ھے تو بے فکر ھو جا۔ اور سکون سے سلام پیش کر۔اس سے پہلے مجھے علم نہیں تھا کہ مسجد نبوی کی چھت اس طرح سے بنی ھوئی ھے کہ جب وہ چاہیں اسے اس طرح کھول دیتے ھیں کہ جیسے آپ کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ھوں۔
جب میں دونفل پڑھ چکی تو میں نے مزید نفل شروع کرنے لگی تو بڑی بیٹی نے کہا۔امی یہاں سب کا حق ھے نفل پڑھنے کا اب دوسرے لوگوں کو پڑھنے کا موقعہ دیں۔مجھے اسکی بات بہت اچھی لگی کہ ھر جگہ پہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے۔ سلام پیش کر کے اور نفل پڑھ کے باھر آے تو سامنے بچے بابا سمیت ھمارا انتظار کر رھے تھے۔باھر آکے بچوں سے کہا کہ مسجد میں کرسیاں خرید کے رکھنا چاہتی ھوں تاکہ ایسے لوگ آسانی سے نماز پڑھ سکیں جنہیں میری طرح گھٹنوں کا عارضہ ھے۔اللہ میرے داماد کو اور تمام مومن مسلمان کے بچوں کو برکتیں، خوشیاں صحت، ایمان کے ساتھ لمبی عمریں عطا فرمائے اس نے کرسیاں خریدیں اور مسجد میں رکھوا دیں۔
اسکے بعد مسجد قبا کیلئے نکلے۔مدینہ پاک میں مسجد نبوی کے بعد جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ پیاری ھے وہ مسجد قبا ھے۔سیاہ فام خواتین مسجد سے باھر کافی جگہ تک پھیلی ھوئی دنداسہ، مہندی، تسبیح، مصالحہ جات سرمہ، خوشبویات اور روز مرہ کے استعمال کی چیزیں رات دیر تک بیچ رہی ھوتی ھیں۔دن کےوقت شدید گرمی میں بھی دھوپ کی پرواہ کئے بغیر۔مسجد قبا کے اندر اونچی چھتوں والی بلڈنگ میں سرخ قالین بچھے ھوے ھوتے ھیں۔بہت پرسکون ماحول میں عورتیں نماز پڑھ رہی ھوتی ھیں بچے ماؤں کو چھوڑ کے ادھر، ادھر ھوتے ھیں تو مائیں نماز پڑھتے پڑھتے ھی انہیں گھسیٹ کے اپنے سامنے لے آتی ھیں اور نماز جاری رکھتی ھیں۔
جاری ھے۔۔