Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Aap Key Bache Itne Ache Kaisy Hain?

Aap Key Bache Itne Ache Kaisy Hain?

آپ کے بچے اتنے اچھے کیسے ہیں؟

دونوں بھائیوں میں سے بڑا اعجاز تھا،وہ میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہوکر اپنے آبائی گاؤں میں رکا ہوا تھا۔گویاکہ اس کی امی بہت وہمی تھیں، اور بچوں کو کبھی اکیلے کہیں نہیں جانے دیتی تھیں۔ لیکن بیٹے کو مزید پڑھنے کیلئے اپنے سے دور کرنا ان کی مجبوری تھی، اس لئے روک بھی نہیں سکتی تھیں ۔ابھی نئی کلاسز شروع ہونے میں کچھ دن تھے، اس لئے اعجاز اپنے آبائی گاؤں اپنی نانی، ماموں دادا، پھپھو سب کے ساتھ رک گیا۔جمعہ کے دن وہ باقی ساتھیوں کے ساتھ جو کہ آپس میں کزن بھی تھے، دریا پر نہانے چلا گیا ،تا کہ جمعہ کی نماز میں وقت پر شامل ہو سکے۔لیکن دریا میں نہاتے ہوئے نا تجربہ کاری کی وجہ سے ڈوب گیا۔

یہ پانچ ساتھی تھے،جب باقی چاروں نے دیکھا کہ اعجاز پانی میں ڈوب گیا ہے ،تو انہوں نے خاموشی سے اس کے کپڑے اور جوتے ریت میں دفن کر دیے اور خود اپنے گھروں کو چلے گئے۔ادھر ننھیال والوں نے سوچا کہ جمعہ پڑھ کر ددھیال کی طرف چلا گیا ہوگا،اور ددھیال والوں نے سوچا کہ نانی کے پاس ہوگا،جب شام کے وقت گاؤں کے دستور کے مطابق صحن میں چارپائیاں اور بستر نانی نے تیار کئے ،تو انہوں نے دودھ لیکر گزرتی ہوئی اعجاز کی پھپھو سے کہا:"اعجاز آج سارا دن گھر نہیں آیا، دوپہر کا کھانا بھی شائد آپ کی طرف ہی کھا لیا ہے۔اس کا بستر میں نے تیار کردیا ہے-اب رات کو کہاں سوئے گا؟

تو اس کی پھوپھو نے (جو کہ بیوہ ہونے کے بعد اپنے دونوں بچوں کے ساتھ اپنے باپ کے ساتھ ہی رہتی تھی) کہا:" آج تو سارا دن اعجاز نظر ہی نہیں آیا اور نہ ہی اس نے دوپہر کا کھانا ہماری طرف کھایا ہے، ،اب تو ہر طرف ڈھنڈیا پڑ گئی ۔اس کے ساتھیوں سے پوچھا تو سب کا ایک ہی جواب تھا، کہ ہم سب نہا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے، ہمیں کچھ علم نہیں۔صحرا کی شام، ٹھنڈی اور ہوا دار ہوتی ہے۔اس کے ماموں دریا کے کنارے بلند آواز سے پکار رہے تھے،"اعجاز، اویے اعجاز"اور ان کی آواز ہوا کے دوش پر دور، دور تک جارہی تھی،لیکن کہیں سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔شائد واپس اپنے والدین کے پاس نہ چلا گیا ہو؟

ان دنوں گاؤں میں فون عام نہیں تھے،کال بک کروانے کے بعد کافی گھنٹے کے انتظار کے بعد بات ہو سکتی تھی،اس پریشانی میں صبح یو گیی،رات کو یوا نے ریت اڑائی تو اعجاز کے جوتے اور کپڑے ایک چرواہے کو نظر آئے،اس نے فوراً گاؤں والوں کو اطلاع دی۔اب یہ تو کنفرم ہو چکا تھا کہ اعجاز دریا میں ڈوب چکا ہے،لیکن اس کی میت کو ڈھونڈے کیلئے پیراک اور فوجی رضاکار دستے دریائے جہلم کو کنگھال رہے تھے۔دوسرے دن جب میت ملی تو اس کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ اسکے والدین اور بھائی کے انتظار میں رکھی جا سکتی اس لئے فوری طور پر غسل کے بعد دفنانے کی تیاری ہو گئی۔ جب اس کی ماں، باپ اور بھائی گاؤں پہنچے تو قبر پر آخری مٹی ڈالی جا رہی تھی ۔

اس کے والد صاحب کا کمال صبر تھا،انہوں نے بیوی سے کہا:اللہ کی امانت تھی، اللہ نے وآپس لے لی،آپ نے بلند آواز سے رونا نہیں،،میرا بیٹا شہید ہے۔لوگوں نے بہت کہا کہ اس کے دوستوں پر کیس کریں ،لیکن انہوں نے صبر و تحمل سے سب کو معاف کیا اور خالی دامن جھاڑ کے ایک مہینے کے سوگ کے بعد وآپس پنڈی اپنے گھر چلے گئے۔جب میں شادی کے بعد اس گھر میں گئی، تو گھر کے سربراہ پر مجھے اتنا پیار آیا ،کہ مجھے میرے مرحوم باپ کی خوشبو ان سے آتی تھی ۔اب وہ میرے پیارے ابا جی تھے۔جب ان کی ریٹائرمنٹ ہوئی ،تو انہوں نے اپنی صرف اصل رقم لی، حالانکہ گورنمنٹ ملازمین کی اپنی رقم اگر 10 لاکھ ہوتی ہے ،تو 10 لاکھ ہی انہیں گورنمنٹ دیتی تھی ۔

لیکن اباجی نے لکھ کر دیا تھا ،کہ مجھے صرف وہ ہی رقم دی جائے جو میں نے اپنی تنخواہ میں سے کٹوتی کروائی ہوئی ہےریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خواہش تھی، کہ جلد از جلد حج کر لیں ان دنوں قرعہ اندازی کے زریعے حج کیلئے نام نکلتے تھے۔قرعہ اندازی میں ساس امی اور اباجی کا نام نکل آیا تو اکثر کہتے تھے کہ اب میں اس جھوٹی دنیا پر مزید نہیں رہنا چاہتا ۔5 محرم کو حج سے واپسی کے دوران انہیں بخار ہوا،جب گھر پہنچے تو بخار تیز ہو چکا تھا۔ایک مرتبہ ہوش میں آئے تو پوتے اور پوتی(میرا بڑا بیٹا اور بڑی بیٹی) کو بلوایا،انہیں سینے پر لٹا کر پیار کیا دعا دی،اس کے علاوہ اور کسی سے ایک لفظ کی بھی بات چیت نہیں کی۔

اور اسی رات 12 بجے کے قریب جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔میرا اور ان کا ساتھ بہت مختصر رہا، لیکن میں نے انہیں ہمیشہ ایمانداری، محنت، قناعت، شکر، صبر کا پیکر پایا۔میرے سسرال میں، میں نے کبھی پیسے کی ریل پیل نہیں دیکھی ،لیکن جب تک ان کی زندگی رہی ہمیشہ ایک سکون ہمارے گھر کا مسکن رہا۔اگر میرے شوہر کبھی میرے ساتھ کچھ زیادتی کرتے تو وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کو سمجھاتے۔ایک مرتبہ سرتاج عشاء کی نماز کے بعد گھر پہنچنے تک کچھ لیٹ ہو گئے،اور جب گھر آئے تو اباجی نے کہا:"گھر کے دروازے بند ہیں تمہارے لئےتمہاری جوان بیوی دو بچوں کے ساتھ آدھی آدھی رات تک تمہارا انتظار کرتی رہتی ہے، ،آخر کار جب ساس امی نے دروازہ کھول دیا تو سرتاج کے منہ پر تھپڑ لگا۔

آج کے بچوں کیلئے شائد یہ سب ناقابل یقین ہوگا ،یا شاید وہ اس عمل کی مذمت کریں گے ،لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے گھر میں،ہمیشہ بزرگوں کا احترام رہا،رزق حلال کا اہتمام رہا،آج میرے بچے جو بھی ہیں ،اپنے بزرگوں کی دعاؤں اور رزق حلال کی بدولت ہیں۔مجھ سے کئی مرتبہ سوال ہوتا ہے ،کہ آپ کے بچے اتنے اچھے کیسے ہیں؟تو ان سب کیلئے لکھ رہی ہوں، کہ گھر میں رزق حلال اور بزرگوں کی دعاؤں کا اہتمام کریں ، ان شااللہ آپ کی نسلیں سنور جائیں گی ۔اللہ پاک میری ساس امی اور سسر ابا کے درجات کو بہت بہت بلند فرمائیں۔

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq