Aaj Ke Bache Depression Ka Shikar Kyun?
آج کے بچہ ڈپریشن کا شکار کیوں ؟
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب گھر کے سودے براؤن موٹے کاغذ میں آیا کرتے تھےاور گوشت اخبار کے کاغد میں لپیٹا ہوا آتا تھااور اس اخبار کو ہرروز خشک کر کے پڑھنا ہمارے لئے عین فرض ہوتا تھا، یہ پڑھنے کا چسکا ایسا تھا کہ ایک مرتبہ اپنی کزن کے گھر پیدل جا رہی تھی، تو راستے میں دیکھا کہ کسی گھر کی مرمت کی وجہ سے ان کے گھر کا بہت سارا کاٹھ کباڑ انہوں نے اُٹھا کر باہر کھلی جگہ پر پھینک دیا ہوا تھا، اس کباڑ میں کچھ کتابیں اور رسالے وغیرہ بھی پھینکے گئے تھے۔ میں نے عادت سے مجبور ہوکر ایک کتاب اُٹھا لی۔ جب گھر آکر دیکھا تو کتاب نہیں تھی بلکہ ایک ڈائری تھی۔
مجھے کیو نکہ پڑھنے کی بہت بُری عادت تھی (بُری اس لئے کہ گھر والے میری اس عادت سے سخت نالاں تھے) اس لئے رات کو بچوں کو سُلانے کے بعد اس کے اوراق اکھٹے کر کے پڑھنا شروع کی، تو یہ ایک بچی کی ڈائری تھی۔ جتنے اوراق سلامت تھے ان کے مطابق وہ بچی لکھتی تھی۔ میری سالگرہ تھی، ماما نے مجھے ویڈیو گیم دی لیکن مجھے بالکل خوشی نہیں ہوئی۔ اگر ماما مجھے تھوڑا وقت دے کر میرے پاس بیٹھ کر مجھ سے پوچھ لیتیں کہ تمہیں کیا چاہئے تو میں زیادہ خوش ہو جاتی، مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا، مجھے کوئی چیز خوشی نہیں دے سکتی۔ میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میرا دل خوش نہیں میں ڈیدی اور ماما کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی وغیرہ وغیرہ۔
کچھ ہی دنوں کے بعد اتفاقاً مجھے دوبارہ اپنی کزن کی طرف جانا تھا، باتوں باتوں میں کزن نے بتایا کہ یہاں ایک بہت امیر کبیر فیملی نے اپنا گھر بیچنے کیلئے رکھا ہے۔ آجکل اس گھر پر کام ہورہا ہے۔ گھر کیونکہ بہت اچھا بنا ہوا ہے اس لیے اگر کوئی اپنا خرید لے تو کسی ہمارے اپنے کا بھلا ہو جائے گا۔ جتنی اس گھر کی مالیت ہے اس حساب سے کافی کم قیمت پر مالک بیچنا چاہ رہا ہے۔ میں نے مزید پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کی ایک ہی بیٹی ہے، شائد اسے کوئی زہنی مسئلہ ہے۔ ویسے سیکنڈ ائر کی طالبہ ہے، لیکن اب اس بچی کی وجہ سے لاہور شفٹ ہورہے ہیں۔ بچی کا نام پوچھا تو وہ، وہی بچی تھی جس کی ڈائری کے کچھ اوراق اتفاقاً میرے ہاتھ لگے تھے اور میں نے پڑھ لئے تھے۔
میں چاہتی تھی کہ اس کے والدین سے مل کر انہیں بتاؤں کہ بچی کو صرف ماں اور باپ کی محبت درکار ہے۔ جبکہ انہوں نے اس کی زندگی کو دنیاوی آسائشوں سے تو بھر رکھا تھا، لیکن ان کے پاس اپنی بچی کیلئے وقت نہیں تھا۔ جب میں نے مزید پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ ڈیلر کے زمے فروخت کا معاملہ لگا کر خود یہاں سے جا چکے ہیں۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب موبائل فون عام نہیں تھے۔ لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کی طرف آنا جانا ابھی برقرار تھا، اگر اُس وقت کی بچی کیلئے زندگی اس لئے مشکل تھی کہ اس کے والدین کے پاس اُس کیلئے وقت نہیں تھا، تو آج کے بچوں کیلئے زندگی میں کتنی مشکلات ہیں۔ انٹرنیٹ اور ڈرگز نے ہماری نئی نسل کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آج کی ماں کیلئے بچوں کی تربیت ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
فی زمانہ کتنے بچے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن ہمارا دل خوش نہیں، روح میں شائد کوئی غم ہے پوشیدہ، زندگی بے سبب اداس نہیں، یہ روح کیوں خوش نہیں؟ دیکھیں جسم مٹی سے بنا ہے، جلد یا بدیر یہ اپنے اصل کی طرف لوٹ جائے گا، مٹی ہے اور مٹی میں مل جائے گا، جبکہ روح اللہ کی طرف سے ہے، اُس نے لوٹ کر اللہ کے پاس جانا ہےاور اُس کو سکون بھی اللہ کے ذکر سے ہی ملے گا۔ اپنے بچوں کا تعلق بچپن میں ہی اللہ سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ اللہ کو ان کیلئے کسی ظالم، جابر کے طور پر مت پیش کریں۔ اللہ تو وہ ہے جو ہررات پُکار، پُکار کر اپنے بندوں سے پوچھتا ہے۔"ہے کوئی میرا بندہ جو مجھ سے مانگے"وہ اللہ ایسا نہیں کہتا کہ ہے کوئی میرا نیک بندہ، یا پرہیزگار بندہ، یا نمازی بندہ یا مسلمان بندہ اللہ تو صرف اپنے بندوں کو پکارتا ہےوہ جیسا بھی ہے، جس حال میں بھی ہے، نیکوکار ہے یا بدکار ہے، مسلمان ہے یا کافر ہے۔
ہر انسان کے اندر نیکی اور بدی دونوں کا بیج موجود ہوتا ہے، اگر آپ چاہیں تو بچے کے اندر موجود نیکی کے پودے کو پروان چڑھائیں یا بدی کے پودے کو، آپ جیسی تربیت کریں گی بچے کے اندر موجود پودا ویسا درخت بنے گا۔ یہ ہمارے بچے ہمارے پاس اللہ کی امانتیں ہیں۔ آپ جاب کرنا چاہتی ہیں شوق سے کریں۔ لیکن یاد رکھیں !بچے کی بہتر زندگی کے لئے آپ کی دعا اور ابتدائی سال بہت اہم ہیں اُن کیلئے اٹھتے بیٹھتے اس دعا کو پڑھا کریں ربنا ہب لنا من ازدواجنا و ذریتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین (درست آیت نیٹ سے نکال کر پڑھیں)امام انہیں اللہ سے جوڑ دیں، ان کا توکل اللہ پر بنا دیں، ان کے کردار کی پہلی اینٹ سیدھی رکھیں ان شااللہ شاندار عمارت تیار ہوگی۔
یہ ہمارے بچے ہی تو ہمارا مستقبل ہیں۔ انہیں بہت سارا وقت دیں، اپنا لمس دیں، ان کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالیں، انکی روحوں کو اللہ سے جوڑ دیں۔ انہیں بتائیں کہ وہ اپنی باتیں اللہ کو بتائیں گے تو ان کیلئے اللہ ہی کافی ہو جائے گاالیس اللہ بکاف عبدہ کیا اللہ اپنے بندوں کیلئے کافی نہیں۔