Khulasa e Quran, Nawi Nimaz e Taraweeh
خلاصہِ قرآن، نویں نمازِ تراویح

آج کی نمازِ تراویح کا آغاز دسویں پارہ اور سورۃ الانفال کی آیت نمبر 41 سے ہوتا ہے جس میں کفار سے جنگ جیت جانے کے بعد حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کے حصوں کا بیان ہے۔ مالِ غنیمت چار حصے مجاہدین کے درمیان تقسیم ہونگے جبکہ پانچواں (خُمس) حصہ اللہ و رسول اللہ (کل مال کا پچیسواں حصہ)، رسول اللہ کے قرابت داروں (ایک حصہ)، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں (تین حصے) کے لیے ہے اور مالِ فئے پورے کا پورا بیتُ المال میں رکھاجائے گا۔ رسول اللہ کے بعد اب آپ کے اور آپ کے اہل قرابت کے حصے ساقط ہو گئے ہیں۔
اس کے بعد غزوہِ بدر جو کہ 17 رمضان المبارک کو مقامِ بدر میں پیش آیا اسکی شاندار منظر کشی کی گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے میدانِ بدر کو دیکھ رہے ہیں۔ اللہ نے اس غزوہ کو بڑی اہمیت وفضیلت عطا فرمائی ہے کیونکہ 300 بے سروسان بمقابلہ 1000 سامانِ جنگ سے لبریز تھے مگر مسلمانوں کا اللہ تعالی پہ پختہ ایمان تھا جس بنا وہ سپنے سے کئی گناہ بظاہر طاقتور فوج کے مقابلہ میں ڈٹ گئے۔ ظاہری کمزوری کے باوجود مسلمانوں کو کامیابی ہوئی کیونکہ فرشتے انکی نصرت کو آئے اور اسے اسلام کی عظیم فتح قرار دیا گیا اور یہ چیز واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرما دیتا ہے تو وہ نافذ العمل ہوجاتا ہے۔
اس غزوہ میں کفار کے 70 بڑے بڑے سردار مارے گئے، 70 قید ہوئے، 14 صحابہّ (6 مہاجرین اور 8 انصاری) نے شہادت کا منصب حاصل کیا۔ شیطان سراقہ بن مالک کی شکل میں کفار کو لڑئی پر اکسا رہا تھا اور انہیں یقین دلا رہا تھا کہ تم مسلمانوں پر غلبہ پاؤگے۔ علماء نے لکھا ہے کہ غزوہ بدر میں شریک صحابہ کے نام پڑھ کر جو دعا مانگی جائے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے قبول فرماتاہے۔ آیت نمبر 58 میں دوسری قومیں جب عہد شکنی کرنے لگے تو ان کو بتا دو کہ اب تمہارا عہد قابلِ اعتبار نہ رہا اور اسکی پابندی نہ کی جائے گی بے شک اللہ تعالیٰ دغا دینے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں ہروقت تیار رہنے کے بارے میں ہدایات دی گئیں ہیں اور اپنے اسباب ہر وقت تیار رکھو خواہ وہ ہتھیار ہوں یا قلعے یا تیر اندازی تاکہ تم اللہ کے دشمنوں کو ڈرا کر ان دلوں میں اپنی دھاک بٹھاؤ۔ اگر وہ صلح کی راہ اختیار کریں تو تم بھی ان کی صلح قبول فرماؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو بے شک وہی ہے سنتاجانتا۔ عرب کے لوگ صدیوں سے باہمی عداوت و دشمنی میں مبتلاتھے، ذرا ذرا سی بات پر بگڑ جاتے اور ان کے درمیان صلح ہونا ناممکن تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنے حبیب کو مبعوث فرما کر ان کی حالت بدل گئی اوران میں ایمانی محبت پیدا ہوگئی۔
آیت نمبر 65 میں رسول اللہ کو حکم دیا گیا کہ ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دیجئے، اے غیب کی خبریں (اللہ کی عطا سے) بتانے والے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں کے بیس (20) صبر والے ہوں گے دوسو (200) پر غالب ہوں گے اور تم میں کے سو (100) ہوں تو کافروں کے ہزار (1000) پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ اس سے مسلمانوں کو بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تمہیں اپنے سے دس گنابڑی تعداد پر فتح عطا فرمائے گا۔
آیت نمبر 69 میں بتایا گیا ہے کہ تمہارے لیے مالِ غنیمت حلال پاکیزہ ہے ان میں سے کھاؤ (امتِ محمدیہ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھیں)۔ قوموں کے عروج و زوال بارے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اسوقت تک زوال پزیر نہیں فرماتا جب وہ خود پستی کا شکار نہ ہو۔ سورت کے آخر میں بتایا کہ وہ لوگ جو اللہ کی رضا کے لیے ہجرت کرتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اس سورت میں شروع سے لے کر آخر تک جہاد کے احکامات ہیں۔
سورۃ التوبہ مدنی سورت ہے اور فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی، ترتیبِ توفیقی کے اعتبار سے 9 اور ترتیبِ نزولی کے لحاظ سے 113 نمبر ہے۔ اس سورت کے دس نام ہیں مگر دو مشہور نام "التوبہ" اور "البراءت" ہیں۔ اس کے 16 رکوع اور 129 آیات ہیں۔ بعض علماء کے مطابق اس کی آخر کی آیتیں مکہ میں نازل ہوئیں۔ اس سورت کے اول میں "بسم اللہ" نہیں لکھی گئی کیونکہ جبریلؑ اس کے ساتھ "بسم اللہ"لے کر نازل نہیں ہوئے۔ حضرت علیؓ کے مطابق یہ سورت تلوار کے ساتھ امن اٹھا دینے کے لیے نازل ہوئی جبکہ "بسم اللہ" امان ہے۔ بعض علماء کے نزدیک پچھلی سورت (الانفال) اور اس کے مضامین باہم مربوط ہیں اس لئے آغاز میں "بسم اللہ" نہیں لکھی گئی۔ اس سورت میں تین سچے مسلمانوں کی قبولیت کا واقعہ ہے۔
سورت کا آغاز مشرکینِ عرب کی عہد شکنی کے بیان کے ساتھ ہوتا ہے اور حکم ہوا کہ چار مہینے امن کے ساتھ وہ جہاں چاہیں رہیں، خوب سوچ لیں کہ ان کے لیے کیا بہتر اور مدت گزرنے کے بعد اسلام قبول کرنا ہوگا یا قتل۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بدعہدیوں کی وجہ سے اگلے سال ان کے لیے بیت اللہ کا حج بھی ممنوع قرار دیا اور مسلمانوں کو انکے قتال کی اجازت دے دی۔ ہر قبیلے نے عہد شکنی، منافقت اور جھوٹ سے اسلام دشمنی کی جن میں بنو قریظہ، بنو نضیراور بنوقینقاع سرفہرست تھے۔
آیت نمبر 23 میں کافروں سے ترکِ موالات کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔ اگلی آیت میں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کو سب سے مقدم رکھنے بارے ارشاد فرمایا "تم فرماؤ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مال یہ چیزیں تمہیں اللہ اور اسکے رسول اور اسکی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو (انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا"۔ اللہ تعالیٰ نے غزوات میں تمہیں کافروں پر غلبہ عطا فرمایا جیسا کہ بدر، قرَیظہ، نضیر، حدیبیہ، خیبر اور فتح مکہ۔
آیت نمبر 28 میں مشرکوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ نرے ناپاک ہیں کہ ان کا باطن خبیث ہے اور نہ وہ طہارت کرتے ہیں اور نہ نجاستوں سے بچتے ہیں پس وہ اس سال (9 ہجری) کے بعد مسجدِ حرام کے قریب (حج وعمرہ کے لیے) نہ آئیں اور اگر تمہیں تجارتی خسارے کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل و کرم سے دولت مند کر دے گا۔
اہل کتاب کے بے دینی ذکر فرمایا کہ ان کے فاسد اور خود ساختہ عقائد ہیں وہ مخلوق کو اللہ کا بیٹا بنا کر پوجتے ہیں جیسے کہ یہودی عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا اور نصاریٰ مسیحؑ کا اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ منکر اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں مگر اللہ کی خواہش اس کے برعکس ہے کیونکہ یہ دینِ حق ہے جو تمام ادیان پر غالب ہے۔ پھر سونا چاندی اور مال و دولت کے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے اور زکوۃ ادا نہ کرنے والوں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والوں کے لیے وعید ہے کہ انکے مالوں کو جہنم کی آگ میں تپا کر انکی پیشانیوں، پہلوؤں اور پیٹھوں کو دغا جائے گا۔
آیت نمبر 36 میں بتایا گیا کہ اللہ کے مہینوں کی تعداد 12ہے ان میں سے چار (محرم الحرام، رجب المرجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ) حرمت والے ہیں اور جنگ و جدل منع ہے۔ آیت نمبر 40 میں شانِ صدیقِ اکبرؓ بیان کی ہے جہاں ہجرت کے وقت انہیں غارِ ثور میں خاص رقابت و پاک معیت نصیب ہوئی اسوقت جب کفار نے دارالندوہ میں حضور کے قید و قتل برے برے مشورے کئے تھے۔
آیت نمبر 56 میں منافقین کی ایک عادت بارے بیان ہے کہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں مگر وہ تمہارے دین و ملت پر نہیں اور تمہیں دھوکہ دیتے ہیں۔ آیت نمبر 61 میں فرمایا کہ جو رسول اللہ کو ایذاء دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ آیت نمبر 67 میں بتایا کہ "منافق مرد اور منافق عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے (ایک جیسے) ہیں، برائی کا حکم دیں اور بھلائی سے منع کریں اور اپنی مٹھی بند رکھیں (کہ خرچ نہ کرناپڑھے) وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑ دیا بے شک منافق وہی بے حکم و نافرمان ہیں"۔
آیت نمبر 79 میں مسلمانوں اور منافقین کا ایک شعار کا بیان ہے کہ مومن اپنے کمائی سے راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہے تو منافقین ان پر طعن کرتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ سوت کے آخر میں منافقین کا ذکر ہے کہ جب مومنوں کو بھلائی پہنچے تو انھیں برا لگتا ہے اور جب کوئی مصیبت پہنچے تو خوشیاں مناتے ہیں۔ اس پر حضور کی ڈھارس بندھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "تم فرماؤ ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیااور وہ ہمارا مولی ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چائیے"۔ پھر حضور کو بتا دیا کہ اگر آپ ان کے بارے میں ستر بار بھی استغفار کریں گے تو اللہ ان کی مغفرت نہیں کرے گا (عبداللہ بن ابی بن سلول، سردارالمنافقین کے انتقال پر اپنا کرتہ مبارک عطا فرمایا، نمازِ جنازہ پڑھی، دعائے مغفرت کی مگر بعد میں آپ کو اس سے منع فرما دیا گیا)۔
دسویں پارے کے آخر میں ان صحابہ کا ذکر ہے جو جہاد میں شریک ہونے کے لئے حاضر ہوئے اور حضور سے سواری کی درخواست کی۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں جس پر تمہیں سوار کروں تو وہ روتے ہوئے واپس ہوئے۔ راویات میں ان اصحابِ رسول کے نام آئے ہیں جو کہ سات انصاری صحابہ تھے جن میں حضرت عبدالرحمٰن بن کعب، حضرت سالم بن عمیر، حضرت عمرو بن الحمام، حضرت ہرمی بن عبداللہ، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت علبہ بن زید اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضوان اللہ تعالیٰ اجمٰعین شامل ہیں۔ پھر آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ مواخذہ تو ان سے ہے تم سے (حضور سے) رخصت مانگتے ہیں اور وہ دولت مند ہیں۔ انھیں پسند آیا کہ عورتوں ساتھ پیچھے بیٹھ رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کر دی تو وہ کچھ نہیں جانتے (کہ جہاد میں کیا نفع و ثواب ہے)۔