Falasteen Israel Tanaza (2)
فلسطین اسرائیل تنازعہ (2)
اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد یہودیوں نے غاصبانہ اقدامات اورفلسطینیوں پر مظالم ڈھانا شروع کر دیئے۔ عرب مسلمانوں نے اس کے عَلم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں عربوں اوراسرائیل کے درمیان پہلی خونی جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں مجبوراََ 7 لاکھ فلسطینیوں نے نقل مکانی کرکے ہمسایہ ممالک اور غزہ میں پناہ لی جس کی وجہ سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کو غیر قانونی قبضہ کرنے کا راستہ مل گیا۔
اسرائیل کا یہ غصبانہ قبضہ ابھی تک برقرار ہے جس کے خلاف آج بھی فلسطینی جہدوجہد کر رہے ہیں۔ اسرائیل جو کہ غاصب کے طور پرفلسطین میں آیااور بڑی جرت سے اپنے اتحادیوں کے بل بوتے پر (خاص کر امریکہ) دیدہ دلیری سے اقوامِ متحدہ کی قراردوں کو بھی مسلسل مسترد کرتا جار رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی فلسطین کے حق میں متعدد قراردادوں کے باوجود فلسطینیوں کو دوبارہ اپنے اصلی وطن میں آباد نہ ہونے دیااور یہودیوں کی آباد کاری شروع کر دی۔
اس جنگ میں اسرائیل کو بیت المقدس کے مغربی حصے میں اردن کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل کا مشرقی حصہ پر قبضے کا خواب جنرل گلب پاشا نے پورا نہ ہونے دیا۔ جنوری 1949میں اقوا م متحدہ نے اسرائیل اور عرب کے درمیان عارضی فائر بندی کروا دی مگراندرونِ خانہ مزاحمتی جنگ جاری رہی۔
فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والی ناانصافیوں، ظلم و بربریت کی وجہ سے نہتے نوجوانوں کی طرف سے مزاحمت جاری رہی جس کے نتیجے میں دونوں کے مابین اب تک پانچ جنگیں ہو چکی ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھا جس سے مزاحمتی آزادی کی تحریکوں کاا ٓغاز ہوا۔ یہاں پر بھی امریکہ اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ سامنے آیا اور انہوں نے ان مزاحمتی تحریکوں اور اس میں شامل تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دلوا کر پابندیاں عائد کروا دیں۔
اسرائیل باربار سلامتی کونسل کی قراردادوں کو رد کرتا رہا جس میں قرارداد 242 اور قرارداد 338 قابلِ ذکر ہیں۔ اس بار بار کے انکار اور اسرائیلی ہٹ دھرمی پر کسی بھی ملک نے اس کا بائکاٹ نہیں کیا۔ امن کے معاہدوں پر بھی اسرائیل نے کوئی خاطر خواہ عمل نہیں کیا، مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے گئے جس پر احتجاجی تحریکیں زور پکڑنے لگیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں کے درمیان 1993 میں ہوئے جس پراسرائیلی وزیراعظم Yitzahk Rabin اور PLO کے سربراہ یاسر عرفات اوسلو معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت فلسطین کو عبوری خودمختاری، اسرائیلی افواج کے انخلاء بارے اتفاق ہوا مگر وہ علاقے ابھی تک مقبوضہ تصور کئے جاتے ہیں۔ ایک اور معاہدے کے تحت مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کو خود مختاری دی گئی مگر انہیں ریاست کا درجہ نہ دیا گیا۔ اس کے بعد 2002میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے شہروں پر قبضہ کر لیااور 2004میں یاسر عرفات کی موت کے بعد حالات مزید بدتر ہوتے گئے۔
اسرائیل نے 2006کے بعد اپنے اقدامات مزید جارحانہ کر دیے، تشدد میں اضافے سے اسرائیل کھلے عام جنگی جرائم کا مرتکب ہوا۔ افسوس کہ امریکہ نے ہر موقع پر اسرائیل کی کھل کر حمایت کی جو ابھی بھی جاری ہے۔ اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے اور اقوامِ متحدہ بھی اس کو مقبوضہ مانتی ہے اور اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ فلسطینی اس کو اپنی ریاست کا دارالخلافہ مانتے ہیں جس کے لیے وہ حق پر ہیں۔
آج کا فلسطین دو علاقوں میں بٹ چکا ہے، ایک غربی اردن (رقبہ6ہزار کلومیٹر، یروشلم اور اردن کے درمیان واقع ہے)اور دوسرا غزہ کی پٹی(رقبہ365کلو میٹر) جن دونوں کے درمیان 45کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کار حماس کی حکومت 2007سے ہے جو کئی دہائیوں سے اسرائیلی قبضے کی خلاف برسرِ پیکار ہے۔ اسرائیل نے مصر سے مل کر 2007سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کیا ہوا ہے اوراسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودیوں کو غیر قانونی طور پر آباد کرے سکیورٹی رکاوٹوں سے امن کی خاطر کی جانے والی تمام کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطینی اپنی ریاست کی سرحدیں 1967سے قبل والی حالت پر لانا چاہتا ہے جبکہ اسرائیل اس کو ماننے پر رضامند نہیں ہے۔ تارکین وطن جو فلسیطنی اسرائیل کے قبضہ کے بعد اپنی گھر مجبوری میں چھوڑ کے چلے گئے تھے ان کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے جس کو اسرائیل ایسے فلسطینوں کو شناخت دینے کو تیار نہیں۔
پچھلے سال امریکی وزیرِخارجہ انٹونی بلنکن اور صدر جو بائیدن نے 18-10-2023 کو اسرائیل کا دورہ کرکے اسرائیل کی حمایت اور جنگ کی حمکتِ عملی پر اس کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس حالیہ جنگ میں امریکی بیانات کی وجہ سے کشیدگی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی جارہی ہے جبکہ امریکہ امن کی کوششوں کی بجائے اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔ ایران اور فکسطینی آزدی کی تحریکوں پر مزائل برسائے جا رہے ہیں۔ اسرائل و امریکہ مل کر حزب اللہ کی رہنماؤں کو شہید کر رہا ئے۔
اسرئیلی کی غزہ پر بمباری کے بعد 10لاکھ فلسطینیوں نے نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ جاری اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی پانی اور خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ غزہ پر بمباری کی وجہ سے ہزراوں فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ اب تک اسلامی ملکوں میں ایران نے بڑھ کر ساتھ دیا ایران نے اسرائیل اور امریکہ کو للکارا ہے کہ اگر غزہ پرحملے نہ رکے تو ایران اپنی مکمل طاقت کا استعمال کرے گا۔
ان تمام پیش آنے والے واقعات کے بعد فلسطین کے عوام مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اگر عالمی طاقتوں نے فلسطین اسرائیل تنازعہ کا کوئی حل نہ نکالا تو دنیا میں بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ امریکہ کو ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرنے کی بجائے اس تنازعہ کو حل کروانے کی ضرورت ہے۔
جاری ہے۔۔