Raiwind Ka Basi Karachi Ki Bas Mein
رائیونڈ کا باسی کراچی کی باس میں
میں تھا، بلال تھا اور ساتھ تھا تیمور۔ ہم لوگ کراچی جا رہے تھے میں ٹرین کے دروازے پر کھڑا تھا اور باہر دیکھ رہا تھا آپ اگر ٹرین کے دروازے پر کبھی کھڑے ہوں اور باہر دیکھیں تو آپ کو لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے، عجیب حرکتیں کرتے، عجیب اشارے کرتے نظر آئیں گے۔ آپ کو کچھ لوگ شغل لگاتے ہوئے بھی نظر آئیں گے جیسے میں نے ایک اسٹیشن پر ایک بندے سے پوچھا"یہ کون سا اسٹیشن ہے"تو اس کا جواب تھا"ریلوے اسٹیشن"۔ اگر آپ حقیقی طور پر سفر کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو دیکھنا چاہتے ہیں تو میرا آپ کو مشورہ ہے آپ ٹرین پر ہی سفر کریں آپ حقیقی طور پر کسی بھی جگہ کو دیکھ سکیں گے آپ معاشرہ میں "وہ اور ہم"کا فرق بھی سمجھ سکیں گے اور آپ ہمارے مجموعی رویے بھی سمجھ سکیں گے۔ میرا یہ سفر راے ونڈ سے کراچی تک کا تھا، شام میں، میں زندگی میں پہلی دفعہ میں سمندر پر پہنچاتھا پتہ نہیں عجیب مسئلہ ہے ہم انسان فطرت کے قریب ہی کیوں خوش ہوتے ہیں ہم جنگلوں میں رات گزارنا چاہتے ہیں، پہاڑوں کو عبور کرنا چاہتے ہیں ندی کے کنارے بیٹھنا چاہتے ہیں ہم انسان باغوں میں بھی ٹہلنا چاہتے ہیں میں بھی سمندر کے رنگوں میں ہی مختلف خواب دیکھ رہا تھا سمندری لہریں میرے پاوں کو آہستہ سے چھو کر پھر واپس چلی جارہی تھیں۔ سامنے سورج سمندر کے اندر ڈوبنے کو تیار تھا ہوا نرمی سے میرے رخساروں کو چھوتی تھی اور گزر رہی تھی، روشنی سنہری سے سیاہ اندھریے میں تبدیل ہو رہی تھی اوریہ وقت ریت کے دانوں کی طرح میرے ہاتھوں سے گزر رہا تھا میں جتنا اس کو زور سے پکڑ رہا تھا اتنا ہی وہ تیزی سے نکل رہا تھا۔
دوسرے دن میں چوکھنڈی قبرستان میں کھڑا تھا یہ قبرستان پندرہویں اور سولہویں صدی میں مسلمانوں کے عروج کے دوران بنایا گیا تھا اور یہاں سندھی اور بلوچی لوگوں کی قبریں موجود تھیں مرد کی قبر پر تلوار، گھوڑے وغیرہ کے ڈیزائن تھے اور عورتوں کی قبر پر نتھنی، جیولری کے ڈیزائن تھے۔ میرے دوست تصویریں اتار رہے تھے اور ان لوگوں نے اتنی تصاویر اتاریں کہ مجھے لگا ہم کراچی دیکھنے نہیں شاید یہاں تصاویر اتروانے کے لیے آئیں ہیں انسان انفارمیشن پھیلانے اور"سیلف پروپوگیشن"میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ ہم لوگ موقع محل دیکھے بغیر تصاویر اتروانے میں لگ جاتے ہیں آپ یہی ماحول شادیوں میں اور ہر اس جگہ جو کسی شحص کے لیے نئی ہو دیکھ سکتے ہیں خیر ہم اگلے دن منوڑہ پہنچے۔ منوڑہ میں کچھ عرصہ تک ہندو، پارسی اور عیسائی لوگ بھی موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد بہت کم ہے۔ منوڑہ میں پاکستان کا شاید واحد "شری ویرون دیو مندر" بھی موجود ہے ویرون دیو ہندوں کے مذہب میں پانی کے بھگوان کو کہتے ہیں ہندوازم میں ہر چیز کا بھگوان ہوتا ہے پانی کا بھگوان اور، آگ کا بھگوان اور، روشنی کا بھگوان اور، اندھیر ے کا بھگوان اور۔ ہنداوزم یونانی مذہب سے بہت مطابقت رکھتا ہے یونان میں بھی ہر قسم کے بھگوان دستیاب ہوتے تھے خیر ہم لوگ رات کوسمندری کھانا کھانے اور"سی فوڈ" آزمانے شہر کے مشہور ریسٹورانٹ راشد سی فوڈ پہنچے۔ میں نے پہلی دفعہ جھینگے کھائے اور شاید آئندہ کبھی نہ کھاوں۔ جیسے ہر چیز آتے آتے ہی آتی ہے اس طرح شاید سمندری کھانے آہستہ آہستہ اچھے لگنے لگیں۔ ابھی کے لیے صرف پنجابی کھابے اور وہ بھی لاہور کے کیونکہ صرف لہوڑ میں ہی آپ کو کچی مرچیں اور کچے مصالحے کھانے کو مل سکتے ہیں اور اس معاملے میں لاہور، لہور اے۔
ہم قائداعظم کے مزار پر بھی گئے۔ ہم مزار پر پہنچے فاتحہ پڑھی اور مزار کے نیچے والی منزل میں موجود میوزیم میں داخل ہوگئے، قائد کی روزمرہ کی استعمال کی چیزوں سے لے کر ان کی گاڑیوں تک تمام چیزیں موجود تھیں۔ ان کے لباس، جوتے، سگار پائپ، کھانے کا میز، برتن اور گاڑیاں سب تھا۔ آپ اس کو میرا دیہات پن کہیں یا میری عالمی ایکسپوژر کی کمی مگر میں نے آج تک اتنا نفیس اور اتنا شانداربرتن نہیں دیکھے تھے اس وزٹ کے بعد میں قائد کی نفاست کا قائل ہوگیا ہوں اب مجھے زندگی کے عام فیصلے لینے میں کوئی بھی پریشانی نہیں ہوگی کیونکہ میرے پا س حوالے کے لیے قائد کی چیزیں ان کا رہن سہن کافی ہے۔ کراچی کے سفر کے دوران ہماری بلال کے گھر والوں نے بے انتہا محبت کی، کھانوں میں بھی بٹ برادری کا کوئی مقابلہ نہیں، ہمارے پاس دو دن ان کی گاڑی بھی رہی ہم لوگوں نے آخری دن دو دفعہ کرائے پر گاڑی لی اور مجھے اس دوران زندگی جینے کے دو طریقے بھی مل گئے۔ میرا پہلا ڈرائیور پکا کرانچی کا کا تھا، منہ میں پان، زبان پر گالی، انتہائی بدبودار کپڑے اور دانت نہ ہونے کے برابر تھے وہ سب سے پہلی لین پر سب سے سست اور چھوٹے انجن کی گاڑی چلا رہا تھا اورپیچھے سے آنے والی تیز اور بڑے انجن والی گاڑیوں کو راستہ بھی نہیں دے رہا تھا۔ ان کی الٹی لعن طعن کر رہا تھا کہ"صبر ہی نہیں ہے ان لوگوں میں "۔ میں نے اللہ اللہ کر کے یہ گھنٹے کا سفر مکمل کیا، اور دعا کی یا اللہ مجھے کبھی بے صبرے ڈرائیور کے ساتھ نہ بٹھانا۔ کیونکہ سڑک پرا کثر ایک غلطی زندگی کی تمام غلطیوں سے بھاری ثابت ہوتی ہے۔ اگلے دن مجھے دوسری قسم کا ڈرائیور مل گیا۔ منہ پر داڑھی، زبان پر اللہ کا شکر، صاف کپڑے اور گاڑی کسی اللہ والے کی لگ رہی تھی۔ اس نے مجھے ہماری پاکستانی عوام کریم اور اوبر کے ڈرائیور کے ساتھ کیا کیا کرتی ہے اس کے بھی ایک دو قصے سنائے۔ مجھے اس کے پاس بیٹھ کے ایسا لگا کہ مجھے اس جیسے بندوں سے ملنے کی ضرورت ہو ں جو بلاوجہ شکایت نہ کریں جو چیز جیسے ملے اس کو انسان کو قبول کر لینا چاہیے۔ ہم لوگ اسٹیشن پہنچے تو پتہ چلا ٹرین چھ گھنٹے لیٹ ہے ہمارے پاس صبر کرنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ آپ بھی کبھی ریلوے اسٹیشن پر گاڑی انتظار کر کے دیکھیں آپ کو زندگی کے ہر دائرے کار کے لوگ ملیں گے۔ ایلیٹ کلاس، مڈل کلاس اور لوئر کلاس۔ سب لوگ اپنی اپنی کلاس کے لحاظ سے رویہ اختیار کرتے نظر آئیں گے نو بجے گاڑی پہنچ چکی تھی، وہ زور دار ہارن دے رہی تھی، ہم لوگ بھاگ کر گاڑی میں بیٹھ گئے اور جاتے ساتھ ہی اپنے موبائل چارجنگ پر لگا دیے۔ گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگ پڑی اور میں راے ونڈ شریف پہنچنے کا انتظار کرنے لگ پڑا۔