Masla Falasteen, Haqeeqat Pasandi Aur Hum (2)
مسئلہ فلسطین، حقیقت پسندی اور ہم (2)
تاریخی، سیاسی، نفسیاتی و جغرافیائی اعتبار سے حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات اصول اور قاعدے کی حیثیت سے سامنے رکھیں کہ وہ دور چونکہ فتوحات اور غلبے کی بنیاد پر حکومتیں قائم کرنے کا دور تھا، باوصف حضرت امام حسن اور حضرت امیر معاویہ کی صلح کے حضرت امیر معاویہ کی حکومت کم وبیش 22 برس تک قائم رہی اور اسی دوران عباسیوں کا خروج بھی موجود رہا، درمیان میں ہارون و مامون کے ادوار بھی علم وحکمت، ترقی اور عروج کے حساب سے بے مثال تاریخ پہ مشتمل ہیں۔
ادھر بنو امیہ ہسپانیہ تک سلطنت قائم کرچکے تھے، جبکہ مصر میں انفرادی سطح پر فاطمی سلطنت قائم ہوگئی اور 1258ء میں ہلاکوخان نے عباسیوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور غلبے کی نفسیات کے تحت ہی 1571ء تک قاہرہ (مصر) میں علامتی طور پر ہی سہی مسلمانوں کی خلافت کا ذمہ عباسیوں کے سر رہا۔ پھر ترکوں میں سے عثمانیوں نے سیاسی اعتبار سے قوت و اقتدار کا بڑا درجہ حاصل کیا اور خلافتِ عثمانیہ کے نام سے ایک دور کا آغاز ہوا۔ جب مسلمان سیاسی طور پر انتشار کا شکار ہوئے تو دنیا کی حکمرانی کی تبدیلی کے لئے عوامل کار فرما ہونے لگے۔
اس سارے منظر نامے کو اختصار کے ساتھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم اور اقوامِ متحدہ کے قیام سے پہلے تک پوری دنیا میں ظاہری طور پر یہی نظم اور اصول چلتا رہا کہ زورِ بازو اور قوت کی بناء پر ہی حکومتیں اور سلطنتیں قائم کی جاتیں اور کسی مذہبی، سیاسی فکرکے ماننے والے اسے ایک مذہبی احساس اور دینی مطالبے کے تئیں قائم کرنے کی کوشش میں تو رہتے ہی لیکن ساتھ ساتھ اقتدار اور حکمرانی کا ایک فطری اور نفسانی غلبہ اور خواہش بھی شاملِ جستجو رہتی۔ اب اس سارے عرصے کے دوران حضرت عمر فاروق کے دور سے لے کر مسلمانوں کے قبضے میں رہنے والا خطہ "فلسطین" 1099ء میں مسیحیوں کے تحت چلا گیا۔ بعد ازاں 88 سال کے عرصے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں اس کو دوبارہ حاصل کرلیا۔
پھر قدرت کے اصول اور ضابطے کے تحت کمزوریوں اور سازشوں کے سبب مغربی اقوام کو ایرانی سلطنت، عثمانی خلافت اور مغلیہ حکومت میں حکام کی خامیوں اور علمی، اخلاقی، سائنسی و تکنیکی کوتاہیوں کی وجہ سے ذرا سی محنت اور کوشش سے مغرب کو اقتدار حاصل ہوا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی برطانیہ عظمٰی کے مقابلے میں سلطنتِ عثمانیہ نے جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کا ساتھ دیا لیکن حالات اور قدرت چونکہ برطانیہ کے پلڑے میں تھے اس لیے لیگ آف نیشن کے قیام کے بعد عربوں کو عرب کے نسلی و تاریخی اقتدار کی یاداشت کا لالچ دیتے ہوئے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف استعمال ہونے کی شرط کے ساتھ عرب دینے کا وعدہ کیا گیا اور یہود سے معاونت کی بناء پر انہیں انکے قدیم اور مقدس شہر فلسطین کو "یہودی وطن" بنانے کی ہامی بھری گئی۔
یاد رہے یہ دور بھی فاتحین کا دور تھا لیکن بوجوہ دوسری جنگ عظیم ہوئی اور دوبارہ اس قدر بغاوت اور فساد سے بچنے کے لئے الگ الگ ریاستوں پر قابض ممالک بلکہ فاتحین نے اقوامِ متحدہ کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل برصغیر میں بھی خلافتِ عثمانیہ کی باقیات کا خاتمہ ہوچکا تھا اور دنیا ایک نئے نظم اور فاتح کی ایک دلفریب اسکیم میں چھپے نمائشی نعروں (قانون کی حکمرانی، جمہوریت، حقوق، آزادی وغیرہ) کے ساتھ اُبھری۔ اقوامِ متحدہ میں"ویٹو" کے اختیار کے حاملین پانچ ممالک در اصل اس وقت نظم اور کنٹرول کے اعتبار سے "پوری دنیا کے فاتح" ہیں اور ہم ایک دلفریب مگر حقیقی طور پر اُسی قاعدے (فاتح و مفتوح) کے اعتبار سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس عروج و زوال کے اسباب بھی ایک الگ اور خاص موضوع ہے مگر جس قدر جلد اور حقیقت پسندی کے ساتھ اس حقیقت کو جانچ لیں اور اپنی حیثیت کو بھانپ لیں اتنا ہی اچھا ہے۔
اب اس کشمکش میں اپنی یعنی مسلمانوں کی پوزیشن کے واضح ہونے کے بعد یہ بات بھی ذہن نشین فرمالینی چاہیے کہ حاکم، فاتح اور غالب اپنے محکوم، مفتوح اور مغلوب کو کبھی عدل اور انصاف کی بنیاد پر مساوات اور حقوق فراہم نہیں کرتے بلکہ خیرات اور اچھے موڈ میں رعایت اور سہولت دیا کرتے ہیں۔ پھر چاہے وہ فلسطین کا معاملہ ہو یا کشمیر وغیرہ کا، اقوامِ متحدہ بلکہ ہمارے فاتحین کبھی انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنائیں گے بلکہ اس عالمی نظم و کنٹرول کے قیام کے مراحل میں اپنے وفاداروں اور ساتھیوں سے کیے گئے عہد و پیماں کی روشنی میں ایسے حیلے بنائیں گے وعدہ بھی پورا ہو اور مغلوب و محکوم اقوام میں بغاوت، نفرت اور بدلے کی آتش بھی جواں نہ ہو۔ کشمیر اور فلسطین کا معاملہ بھی میز پر بیٹھ کر کھینچی گئی لکیروں کا ہے نہ کہ انسانی حقوق کی پامالی اورغیر امتیازی سلوک کے راگوں کا۔
اب مسلم اقوام کو چاہیے کہ وہ علمی، سائنسی، سیاسی اور مذہبی اعتبار سے اپنے گریبان میں جھانک کر ان پہلوؤں پر غور کرکے دنیا کے نقشے پر مقام حاصل کرنے کی سعی تو کرتے رہیں لیکن تب تلک فلسطینی مسلمانوں کے حقوق اور جان و مال کی حفاظت کے لئے اس کڑوے مگر حقیقی گھونٹ کو نوش فرمائیں کہ ایک تو فلسطین (مسجدِ اقصیٰ) کی حفاظت و تولیت کا مطالبہ ہم سے نہیں کیا گیا، بلکہ توحید کے مرکز و محور کی حیثیت سے بیت اللہ (مسجدِ حرام) کی جانب اپنی عقیدتیں اور توانائیاں مرکوز رکھیں اور اپنے فاتح یعنی اقوامِ متحدہ کی 48ء کی قرارداد کو تسلیم کروائیں گوکہ اُس وقت یہ فیصلہ نہ مان کر ہم نے اپنا ہی نقصان کیا اور کرواتے چلے آرہے ہیں اور اخلاقی طور پر بھی پوزیشن کمزور کرچکے ہیں لیکن پھر بھی اس قراداد کے متعلق عملداری کی گزارش کریں اور اپنی جانیں بچائیں، ایسا کرنا نہ تو ایمان کی کمزوری ہے اور نہ ہی جذبے کی کمی بلکہ حقیقت پسندی کے ساتھ روشن راہ کی جانب بڑھتا قدم ہے اور ویسے بھی ہتھکڑی میں جکڑا سپاہی جابر تھانے دار کے سامنے کس قدر طاقت رکھتا ہے۔ گوکہ ایسا کہنے والے ہمیشہ سب و شتم کا نشانہ بنتے آئے ہیں لیکن سچ پوچھیں تو یہی انسانیت اور مسلمانوں کی جانوں کے حقیقی خیرخواہ ہیں لیکن "وہ اپنے" کیا جانیں کہ انسانی جان کی حرمت اور امن کے سودے میں یہ ردِعمل بھی اعزاز ہوا کرتے ہیں۔