Masla Falasteen, Haqeeqat Pasandi Aur Hum (1)
مسئلہ فلسطین، حقیقت پسندی اور ہم (1)
مسئلہ فلسطین پر حتمی رائے قائم کرنے سے قبل ہمیں اس کی مذہبی و سیاسی تاریخ کو سامنے رکھنا پڑے گا اس لیے کہ محض جذبات و معصوم خیالات کی خواہشات کسی چیز کا حل نہیں ہوا کرتے بلکہ حقیقت پسندی کے ذریعے روشن راہوں کی جانب حکمت و تدبر سے اقدامات کی معنویت زیادہ اثر رکھتی ہے۔
مذہبی اعتبار سے اس خطے کی تاریخ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کی ذریت میں رسالت اور نبوت کو خاص کرنے کے بعد اس کائنات کے مالک نے دو سلسلوں سے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے سامان کیا۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت اسحاقؑ اور ان کی نسل سے آنے والے انبیاء کرام علیہم السلام ہیں، جن میں حضرت یعقوبٌ جوکہ حضرت ابراہیمؑ کے پوتے اور ان کے بعد سیدنا مسیح (عیسیٰؑ) تک ایک طویل اور شاندار سلسلہ ہے۔ چنانچہ اس سلسلے کو مذہبی اصطلاح میں بنی اسرائیل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسرائیل چونکہ حضرت یعقوبٌ کا لقب ہے اور بنی کا مطلب ہے اولاد اور نسل۔
پس جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے ماننے والے اس سلسلے ہوتے چلے گئے وہ بنی اسرائیل کہلائے۔ اس بنی اسرائیل کے لئے مرکز اور گڑھ کی حیثیت سے جس خطے کو اللہ رب العزت کی جانب سے خاص کیا گیا وہ ارضِ مقدس کنعان (فلسطین) کا علاقہ ہے۔ جس کے لئے قرآن مجید میں مسجدِ اقصیٰ کا لفظ استعمال کیا گیا، (یاد رہے مسجد سے مراد یہاں مینار و گنبد پہ مشتمل کوئی عمارت نہیں بلکہ ایکڑوں پہ مشتمل پورا خطہ ہے جسے سجدہ گاہ کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا) بنی اسرائیل میں بہت سے جلیل القدر انبیاٌء کی بعثت ہوئی جن میں سے حضرت دائودٌ نے یہاں ایک عمارت کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں حضرت سلیمانؑ نے وہاں ایک ہیکل (گنبد) تعمیر کرا کے تکمیل کی۔
یونہی جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ کی آمد بھی اسی بنی اسرائیل میں ہوئی جنہیں اس وقت کے مسلم اور آج کے یہود اپنا مذہبی پیشوا تسلیم کرتے ہیں، اسی طرح چلتا چلتا یہ سلسلہ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت مسیحؑ تک پہنچا، دعوت کو قبول کرنے کے بجائے ان کے منکرین کی جانب سے انہیں صلیب پہ لٹکانے کی ناکام کوشش کی گئی اور اس طرزِ عمل سے خدا کے عذاب کو دعوت دی گئی چونکہ یہ رویے نہ صرف خدا کے دعوتی اور آفاقی منشور کے خلاف سرزنش پہ مبنی تھے بلکہ زمین پر خدا کی حجت سے دشمنی اور مخالفت کی وجہ سے خدا کے لئے چیلنج تھے۔ پس یوں ہوا اتمامِ حجت کے تمام پہلو مکمل ہونے، مہلت ملنے کے بعد رومیوں کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ پر حملہ کیا گیا اور یہاں کے رہنے والے ان کے مغلوب و محکوم ٹھہرے۔
اب یہاں سے حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے صاحبزادے حضرت اسماعیلٌ کی پشت سے انسانیت کی ہدایت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے پوری نسل میں سے ایک پیغمبر آئے جنہیں ہم ہر اعتبار سے خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نام سے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ اپنے دور میں ہی حضرت اسماعیلٌ اور ان کی والدہ کو سرزمینِ عرب چھوڑ چکے تھے یوں ان کی نسل سے اس عظیم الشان اور ہر اعتبار سے زمین پر خدا کی آخری حجت اور شخصیت کا ظہور شہرِ مکہ میں ہوا۔ جس طرح یہ نبوت، ہدایت، لوگوں پر خدا کی شہادت اور حجت کا سلسلہ بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کی جانب منتقل ہوا بالکل اسی طرح جغرافیائی طور پر ارضِ مقدس کا تاج اب مسجدِ اقصیٰ سے بیت اللہ (مسجدِ حرام) مکہ کی جانب منتقل ہوگیا، جس کی بہت عرصہ قبل حضرت ابراہیمؑ کی جانب سے بنیاد رکھی گئی اور تعمیر کیا گیا تھا۔
سر زمینِ حجاز میں رسالت مآب ﷺ نے پوری ذمہ داری اور شان و شوکت سے اس خدائی فریضے کو سرانجام دیا اور آزمائش کے تحت تکالیف کے آنے پر بالآخر آپ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ مکہ میں آپ کے مخاطبین چونکہ مشرکین مکہ اور کفار تھے جوکہ اپنی نسلی عصبیت میں پہلے سے بہت معروف تھے، اِن کی آزمائش اور تزکیے و تربیت کے لئے قبلہ کا رخ مسجد اقصیٰ قرار دیا گیا کہ اہلِ مکہ کہیں قبلے کی بحث میں الجھ کے رہ جاتے ہیں یا خدا و رسول کے حکم پر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جب مدینہ میں آپ کے مخاطبین یہود و نصارٰی تھے جو کہ مسجدِ اقصیٰ کو ہی اپنا قبلہ مانتے تھے، ان کی ابتلا کی خاطر قبلہ کا رُخ تبدیل کرتے ہوئے بیت اللہ (مسجدِ حرام) کو قبلہ قرار دیا گیا۔
یہاں پر یہ بحث بھی ختم ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول مسجدِ اقصیٰ ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ مسجدِ اقصیٰ ایک وقتی نوعیت کا فیصلہ تھا جبکہ قرآن کی آیت (ان اول بیت وضع للناس للذی ببک) کہ روئے زمین پر لوگوں کی توحید کے لئے جو پہلا گھر مقرر کیا گیا وہ مکہ میں بیت اللہ ہے۔ اور ساتھ ساتھ روایات میں آپ ﷺ کے متعلق جو احادیث ملتی ہیں کہ اعلانِ نبوت سے قبل آپ غارِ حرا میں عبادت و یکسوئی کے لئے تشریف لے جاتے تھے وہاں تب سے اب تک آج بھی اُس حصے میں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ اس جائے عبادت کا رُخ بھی مسجدِ حرام ہے نہ کہ مسجد اقصیٰ۔ ویسے بھی قبلے رُخ کی بحث لا یعنی بحث ہے اصل اہمیت خدا کے حکم کی ہوتی ہے، تاریخ میں ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ مختلف حالات و معاملات کے پیشِ نظر قبلے تبدیل ہوتے رہے، کبھی کسی خیمے اور تابوت کو قبلہ بنایا گیا تو کبھی حضرتِ موسیٰو حضرتِ ہارونٌ کے گھروں کو۔
اب پورے وثوق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امتِ محمدیہ ﷺ کے مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ مسجدِ حرام ہے جسے خدا کی توحید، وحدت، نبوت، عظمت اور شہادت کے طور پر مسلمانوں کے لئے خاص کردیا گیا اور اس کے متعلق ارشاد ہوا کہ "لا تجتمع فیہ دینان" (اس خطے مکہ میں دو دین جمع نہیں ہوسکتے) لہٰذا بنی اسرائیل اور مسجدِ اقصیٰ سے یہ ذمہ داری، شہادت اور نبوت، بنی اسماعیل اور سر زمینِ حجاز کی طرف منتقل ہونے کے بعد امتِ محمدیہ ﷺ کے لئے اس مقام کی تقدیس اور حیثیت بھی مذہبی نہیں رہی بلکہ شعائر اللہ کے احترام اور ان سے عقیدت کے تحت ایک لگائو تو قائم رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے، لیکن مذہبی حساسیت اور حفاظت و قبضے کا انصرام اور خواہش جسے آج مسلمان اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہیں، بالکل ختم ہوگئی۔ اس لیے بھی کہ بنی اسماعیل سے قطعاً یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ مسجدِ اقصیٰ، ہیکلِ سلیمانی یا فلسطین وغیرہ کی فکر کریں۔ بلکہ دین کی دعوت، پیغام رسانی اور ہدایت کی طرف بلانے کے لئے جو خطہ مرکز اور حجت کی حیثیت سے منتخب کیا گیا وہ عرب "مکہ" کا علاقہ ہے۔ (خیال رہے یہاں فلسطین کی بات ہورہی ہے، فلسطینی مسلمانوں کی حقوق کی نہیں، انکی بابت آئندہ سطور میں ذکر ہوگا)۔
نبی اکرم ﷺ نے آخری رسول ہونے کے حیثیت سے کما حقہ اپنی ذمہ داری سر انجام دی اور اہل عرب کی دینی، سماجی، اخلاقی و عائلی تربیت کا اہتمام فرمایا۔ ہجرت کے بعد وصالِ نبوی سے کم و بیش چار برس قبل آپ نے یہ پیغام ارد گرد کے علاقوں میں بھی بذریعہ خطوط پہنچایا جس میں دعوت دی گئی، سوال و جواب اور اسلام اور پیغمبر اسلام پر اعتراضات کو رفع کرنے کے لئے پیغامات بھجوائے گئے اور قیصر و کسریٰ سمیت 8 خطوط ارد گرد کی ریاستوں کے سلاطین کو ارسال کئے گئے۔
پھر آپ ﷺ کے وصال کے بعد چونکہ آپ اتمامِ حجت بذریعہ خطوط خود فرما چکے تھے، خلفاء راشدین نے اسی قانون کے نتیجے میں کاروائی کا فیصلہ کیا۔ یہاں چونکہ خدا کا ضابطہ یہ ہے کہ توحید کے منکرین کو قتل اور کوتاہی کرنے والے احباب کو محکومی اور غلامی کی سزا دی جائے، اسی قانون کے تحت صحابہ کرامؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کے دور مبارک میں حضرت ابو عبیدہؓ کی قیادت میں ارد گرد کے دوسرے علاقوں کی طرح فلسطین کا رُخ بھی کیا۔ دھیان رہے کہ فلسطین کی طرف جانے کا اقدام اس عمومی طرز کے تحت کیا گیا جیسا کہ دیگر علاقوں کی جانب صحابہ کرامؓ کے دستے روانہ کیے گئے نہ کہ کسی اضافی مذہبی مطالبے اور احساس کے طور پر۔
فلسطین کے مذہبی رہنمائوں نے صحابہ کرامؓ کے محاصرے کے نتیجے میں یہ مطالبہ کیا کہ اگر آپ کے حاکم و خلیفہ خود یہاں آئیں گے تو ہم پر امن طریقے سے چابیاں ان کے حوالے کر دیں گے۔ پس حضرت عمرؓ تشریف لے گئے اور یوں بغیر کسی جنگ و مقابلے کے فلسطین مسلمانوں کے زیرِ حکومت چلا آیا۔
یہاں دینی اعتبار سے فلسطین کی مختصر تاریخ اپنے اختتام کو پہنچی، مزید بعد کے تاریخی و سیاسی پسِ منظر کے لئے۔۔ (جاری ہے)