Hum Kon Hain?
ہم کون ہیں؟
بچپن میں کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے کے بعد دینیات کی کتاب سے جو سوال ابتدائی طور پر رٹوائے جاتے ہیں ان میں سے ایک ہے۔ "ہم کون ہیں؟" جواب میں باہم متفق ہوکر جو آواز کمرائے جماعت سے برآمد ہوتی ہے وہ "مسلمان" ہے۔ شاید زمانہ طفلی میں ہم یہ جواب اس لیے دیتے ہیں کہ معصومیت کا تعلق ہوتا ہے، ہم غیر جانبدار ہوتے ہیں، حسیات ابھی شعور تک نہیں پہنچی ہوتیں یا پھر شاید کوئی اور وجہ ہوگی۔
لیکن جوں جوں زندگی کا پہیہ آگے بڑھتا ہے، انسان معاشرے میں پختگی اور دانست کے سائے تلے جڑیں مضبوط کرتا چلا جاتا ہے توں توں زندگی یا یہ بنیادی سوال (ہم کون ہیں؟) اپنی قدریں کھوتا اور جواب کمزور ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ہم مذہبی شناخت کے اعتبار سے بھی اپنی وابستگی کسی خاص جماعت، گروپ، تحریک یا سلسلے سے جوڑتے چلے آتے ہیں، اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ اس جماعت یا فرقے کا تعلق اسلام سے نہیں ہے، اس لئے کہ ایسے حساس ترین مسئلے میں یعنی کسی کے ایمان و کفر کے جانچنے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ہوتا۔ اور ایسے نازک مسائل میں رائے بھی بڑی احتیاط اور اعتدال سے ہی دینی چاہئے۔
چنانچہ ملتِ ابراہیمی کے پیروکاروں کے لئے بطورِ شناخت جو لفظ قرآن میں متعارف کروایا گیا وہ بھی " مسلمان" ہی ہے۔ اور یہ ایک ایسا مضبوط، دل نشین اور ہمہ گیر رشتہ ہے، جو ہر رنگ نسل اور خطے سے تعلق رکھنے والوں کو ایک گلشن میں اکٹھا کرتا ہے۔ یہ دین ایک آفاقی اور عالمگیر پیغام اور تبلیغ لیے، عقل و شعور کی حد تک تلقین کرتا ایسا خوبصورت مجسم نمونہ ہے کہ اس کے دامن سے امن، محبت، رواداری، اخلاص اور احساس جیسی کونپلیں ہی پھوٹتی ہیں۔
غالباً اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے جامع مانع اور فصاحت سے بھرپور انداز میں محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ "اگر کوئی چیز اچھی ہے تو وہ اسلام ہے اور اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو وہ اسلام نہیں ہے"۔ بدقسمتی سے یا پھر "علم کی فراوانی" سے آج اسی دین کے لئے جو مسئلہ اور چیلنج ہے وہ پوری دنیا میں اسکے منفی تشخص کی اشاعت، فرقہ داریت اور دہشتگردی وغیرہ کا ہے۔
غیر جانبدار مبصرین جانتے اور مانتے ہیں کہ اس مذہب کی حقیقت کیا ہے لیکن غیر مسلم عام عوام کے لئے یہ مخمصہ اتنا آسان اور سادہ نہیں جتنا معلوم ہوتا ہے۔ یوں نہیں کہ دیگر مذاہب میں مکاتب موجود نہیں لیکن وہاں ان مکاتب اور فرقوں کی بنیاد پر یوں تقسیم اور تضحیک بالکل نہیں۔ دماغ کو جھاڑتے ہوئے سادہ طبعی سے سوچا جائے تو ایسے مسائل کی وجہ سے ہم اپنے مجموعی تشخص اور پہچان کی ترسیل میں کافی کمزور واقع ہوئے ہیں، اختلافات زندہ معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، ہوا اور پانی کی طرح ضرورت ہوتے ہیں لیکن ان اختلافات کی حدود آشنائی نہ جانی جائے اور فقط اپنے نظریے اور افراد کو ہی اسلام کے دائرے میں داخل سمجھا جائے ایسا علم و اخلاق کی رُو سے کسی طور مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کسی خاص مکتبہ فکر اور گروپ سے تو میل جول رکھتے ہیں لیکن دوسرے نظریے اور نکتہ نظر کے افراد ہماری نظر میں بری اور مخالف تصور کیے جاتے ہیں، انہیں ذرا سی رعایت دیتے ہوئے ہم اس بات کا ذرا لحاظ نہیں رکھتے کہ وہ بھی اخلاص کی بنیاد پر کسی دلیل پر رہتے ہوئے بات کر رہے ہوتے ہیں، اس نے فلاں مسئلے میں فلاں زاویے سے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی ہوگی، اسکے ذرائع علم و معلومات آپ سے مختلف ہیں اس لیے نتائج بھی مختلف ہیں۔ لیکن ایک طبقے اور گروہ میں رہتے ہوئے ہم خاموش اور غیر محسوس نفرتوں کے عادی ہوچکے ہیں، ہر دوسرے عقائد کے حامل لوگ ہمیں اپنے اور دین کے دشمن معلوم ہوتے ہیں۔
بعض تو ایسے واقعات اور مثالیں ملتی ہیں کہ "سلام" لینا تو کجا دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا جاتا۔ یوں سوچیے کہ اگر کسی مقام پر اہلسنت کی تضحیک کی جارہی ہے تو اس کا اثر مجموعی طور پر اسلام پر کسی طرح پڑے گا، اگر اہل حدیث، اہل دیوبند اور اہل تشیع کے ساتھ کسی جگہ یا پروگرام میں غیر مناسب رویہ اختیار کرتے ہوئے مزاح کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو دین متین کی تصویر کس طرح مجروح ہوتی ہوگی، لیکن ہم خودی کے فریب میں مبتلا ہوتے ہوئے ہر ایسی چیز کو نہ صرف پھیلائیں گے بلکہ ٹاپ ٹرینڈ بھی بنائیں گے تاکہ اپنے فرقے کے سفلی جذبات کو تسکین پہنچائی جاسکے۔
دلائل اور سنجیدگی سے بات کرنے میں بھی کیا حرج ہے لیکن ہم گالی اور پھر گولی تک کی بات کو معمولی سمجھتے اور اسے خدمتِ دین گردانتے ہیں۔ قرآن حکیم کا آفاقی پیغام اور رشتہ کہ "مسلمان بھائی بھائی ہیں" ہماری نظروں اور دماغوں سے قطعاً اوجھل ہوچکے ہیں، فرمانِ رسولؐ کہ "مسلمان جستِ واحد کی طرح ہیں" بھی ہمارے اخلاقی نصابوں سے محو ہوچکا ہے، مرحوم واصف علی واصف کا قول کہ "فرقہ پرست، حق پرست نہیں ہوسکتا"۔ سے بھی ہم نے کوئی نصیحت نہ پکڑی۔
ایسے میں ہم اپنے مسالک اور مکاتب کی تعداد کے اضافے کی کوشش میں تو ہیں لیکن ان سنی، وہابی، دیو بندی، شیعہ کی اس تفریق سے اسلام تنہا سا ہوگیا ہے۔ مختصر یہ کہ آج اس بات کو گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ تمام مسلمان ایک ہی گلدستے کے الگ الگ اور رنگ برنگے پھول ہیں اور کسی ایک پھول کے مرجھا جانے اور خون آلود ہونے سے پورے گلدستے کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔
اسلام تو ہر سطح پر تعلقات استوار کرنے کے لئے آیا، اسی دین کی بدولت انسانیت کو اس کی معراج عطا ہوئی، حقوق اپنی اپنی جگہوں پہ فائز ہوئے اور اخوت و صلہ رحمی کی خوشبو پورے سماج میں پھیلتی گئی۔ کیا کوئی بھی شخص یہ گوارہ کرنا چاہے گا کہ محض اس کے منفی رویے کی وجہ سے اس پر رونق اور خوشبودار بُکے پہ کوئی حرف یا آنچ آئے! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ دین تمام مذاہب سے زیادہ پُرتاثیر، امین اور عالی شان مذہب ہے تو اپنے اعمال و افکار سے اس کو ثابت بھی کرنا پڑے گا کیونکہ آئی ٹی کی اس بھرمار سے پوری دنیا ایک گائوں کی مانند ہوئی پڑی ہی، مشرق و مغرب میں تمام تر معاملات و معلومات میں امتیازات کی حیثیت پہلے سی نہیں رہی۔
آپس کے اختلافات کو پسِ پردہ رکھتے ہوئے اجتماعی مفاد کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی۔ ایک ایسا چارٹر پیش کیا جانا چاہیے جس کے تحت تمام احباب دیگر کے تمام جائز و شرعی نظریات کے احترام کے پابند ہوں، علماء کرام اس میں مرکزی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں تاہم ریاست کی ترجیح بھی ایسے معاملات میں حقیقی ماں کی مثل ہونی چاہیے، عام عوام کی سطح پر اخلاقی اصولوں کی اشاعت کا اہتمام بے حد ضروری ہے، کیونکہ اسی میں حقیقی عافیت ہے اور اسی کے طفیل ہم اپنے بچپن کے سب سے آسان اور بنیادی سوال کے جواب کو یاد رکھ پائیں گے۔
اللہ کے فضل سے تمام تعلقات اور نسبتوں کے باوجود با اعتبار مذہبی شناخت کے مجھے آج بھی اپنی زندگی کے پہلے مذہبی سوال (ہم کون ہیں؟) کا جواب (مسلمان) بے کم و کاست اسی طرح یاد ہی۔ کیا آپ کو یاد ہے؟