Saturday, 27 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Asif Jami
  4. Hamare Ewan Aur Hum

Hamare Ewan Aur Hum

ہمارے ایوان اور ہم

پاکستان میں بھی دیگر کئی ممالک کی طرح ایوانِ بالا کے ساتھ ساتھ ایوانِ زیریں کا نظام فعال ہے، ان ایوانوں کا کام قانون سازی کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی خوشحالی اور بہتری کے لئے اپنے اختیارات اور وسائل کا استعمال کرنا ہے۔ عوام کے جان و مال، صحت، خوراک اور تعلیم کی شفاف رسائی کا ذمہ انہی ایوانوں کے منتخب اراکین پر ہوتا ہے۔

آئین کے مطابق تو ہر ایوان یعنی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے لیکن حالت یہ کہ کوئی بھی قائدِ ایوان اپنی اس آئینی مدت کی تکمیل نہ کرسکا، اس سے یہاں کی جمہوریت کے مضبوط ہونے کی پوزیشن کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں موجود چھ ایوانوں میں صوبائی سطح پر سب سے بڑی اسمبلی "پنجاب اسمبلی" ہے۔ یہ پاکستان میں پنجاب کا قانون ساز ادارہ، لاہور مال روڈ پہ واقع ہے۔ اسے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کیا گیا اور یہ ایوان 371 نشستوں پہ مشتمل ہے۔ جن میں سے 305 پر براہِ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 66 نشستیں خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے لئے خاص ہیں۔

گزشتہ 9 مئی کو ایوان کے اجلاس کی براہِ راست کارروائی کی سماعت کے لیے پنجاب اسمبلی جانا ہوا۔ تلاوت و نعت کے بعد مخصوص وقت سوالات اور جوابات کے لئے ہوتا ہے جبکہ اسکے بعد اراکین اپنے اپنے علاقے کے مسائل اور انکے حل کے لئے بات چیت کرتے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے کچھ محکموں کی بابت سوالات پر صوبائی وزیر خزانہ و پارلیمانی امور میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن جوابات دیتے رہے اور کچھ سوالوں کے جواب پر آئندہ اجلاس کے لئے وقت کی درخواست جناب اسپیکرکے سامنے کرتے رہے۔

علاقائی مسائل کے بعد جن دو، تین بڑے مسائل پہ گفتگو سنی انکا خلاصہ یہ ہے!

اول کہ ہائیکورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کی رکنیت معطل کرنے کے لئے شور شرابہ کیا جاتا رہا جس پر جناب اسپیکر بار بار یہ وضاحت دیتے گئے کہ اسمبلی آئینی و قانونی طور پر الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کی مجاز ہے اور کہتے رہے کہ یہ اجلاس چونکہ کورٹ کے فیصلے کے بعد پہلا اجلاس ہے اسلیے اراکین کو اسمبلی سے نکالنا مناسب نہیں، ہم نے اس سلسلے میں الیکشن کمیشن سے تفصیلات طلب کی ہیں جیسے ہی کوئی وضاحتی لیٹر یا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو ہم اس کے مطابق اپنا فیصلہ کریں گے، اس سلسلے میں جو بات بار بار سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ ایک ہوتا ہے Letter of Law اور دوسرا Sense of Law لیٹر آف لاء اگرچہ موجود ہے لیکن سینس آف لاء کے پیشِ نظر ہمیں صبر اور حوصلے سے کام لینا پڑے گا۔

خدا جانے یہ کیا پیچیدگی ہے البتہ ممبر اسمبلی سمیع اللہ خان نے اپنی گزشتہ بیس پچیس سالہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن میں دو چار کے علاوہ سارے چہرے نئے ہیں اس لیے یہ نہیں جانتے کہ ایوان کورٹ کے ایسے فیصلوں سے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے احکامات کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔

(واضح رہے یہ تحریر لکھتے وقت الیکشن کمیشن کی جانب سے کیے گئے نوٹیفکیشن کی بناء پر ان مخصوص اراکین کی رکنیت معطل ہوچکی ہے)

دوسرا اہم معاملہ جی پی او چوک میں پنجاب پولیس اور وکلاء کی ہاتھا پائی کا تھا۔ اس بارے بھی اپوزیشن آپے سے باہر نظر آئی اور اسپیکر سے آئی جی پنجاب اور لاہور پولیس کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کرتی رہی، صوبائی وزیر قانون کے غیر حاضر ہونے کی بناء پر یہ معاملہ بھی آئندہ اجلاس تک ملتوی کردیا گیا اور جناب اسپیکر یہ کہتے تھک گئے کہ اگر آپ کو بات کا اعتبار اور یقین نہیں اور یوں نعروں اور واہ ویلا کرنے سے ہی آپ لوگوں نے ویڈیوز اور تصاویر بنانی ہیں تو پھر اس ہاؤس اور اجلاس کی کیا ضرورت۔۔

تیسرا اہم مسئلہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی تعیناتی کا تھا، کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی طوالت اور بحث و الجھن کا شکار رہا، مسلم لیگ ن کے سمیع اللہ خان صاحب نے اس امر کا اظہار کیا کہ اسمبلی کی تاریخ میں یہ عہدہ اور ذمہ داری اپوزیشن لیڈر یا حزبِ اختلاف کے اراکین میں سے ہی کسی کو سونپی جاتی رہی ہے لیکن پچھلے دورِ حکومت کے ظرف اور تربیت کی وجہ سے پوری مدت یہ معاملہ بھی الجھا رہا۔ اب جبکہ جیسے کو تیسا والی بات ہے اس لیے ابھی تک کسی بھی نام پہ اتفاق نہیں ہورہا۔

چوتھا اہم اور آخری معاملہ گزشتہ برس 9 مئی کو ہونے والے واقعات کی مذمت کرنا اور اسکے "کرنے والے" احباب کے خلاف قانونی کاروائی کے لیے قرارداد پیش کرنا تھا اس لیے سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی اس معاملے پہ ہوئی، میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے مذمتی قرارداد کا متن پڑھنا شروع کیا اور اپوزیشن اپنی اخلاقی پوزیشن سے بھی گری ہوئی نظر آئی۔ اپنی سیٹوں سے اُٹھ کر اسپیکرکے سامنے آکے بانی تحریک انصاف عمران خان کے پوسٹرز اور تصاویر لہراتے رہے اور اس قراداد کو حتی الامکان مسترد کرنے کی کوشش میں رہے۔

آخر پہ اسپیکر کی جانب سے "ہماری روایتی ووٹنگ" کے ذریعے قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ اپوزیشن اسی طرح اپنے سوشل میڈیا پیجز اور کارکنان کی نفسیاتی تسکین کے لئے کلپس ریکارڈ کرتے رہے اور اجلاس کی کاروائی کے لئے جو ایجنڈا صفحات کی صورت میں پیش کیا گیا تھا اسے پڑھنا تو دُور ہاتھ لگانے کی بھی زحمت نہ کی جبکہ احتجاج کے وقت وہی صفحات پھاڑ کر ہوا میں اڑاتے رہے بغیر اس احساس کے اس میں کیا لکھا ہے اور ہمارے اس رویے سے قومی اخراجات پہ کیا گزرے گی۔

مجھے ایک بات کی سمجھ نہ آئی کہ تحریک انصاف ان واقعات سے خود کو بری الزمہ قرار دیتی ہے لیکن پھر ایسی مذمتی قرارداد اور باتوں پر بھی سیخ پا ہوجاتی ہے، مطلب واضح ہے کہ یا تو آپ نے ان فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے، اور اگر نہیں تو پھر آپکو فکر نہیں ہونی چاہیے۔

خیر کچھ خواتین جواباً گھڑی لہراتی بھی نظر آئیں، چور چور کے نعرے لگتے رہے، اپوزیشن کی جانب سے کچھ غیر مناسب اور غیر پارلیمانی الفاظ کے استعمال پر جناب اسپیکر کو کاروائی سے وہ الفاظ حذف کرنے پڑے۔ البتہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اپوزیشن کا رویہ اور مزاج انتہائی مایوس کن دکھائی دیا۔ باقاعدہ اشاروں، کنایوں اور پلاننگ سے کھڑے ہوکر طعنہ زنی کرتے رہے اور ماحول کو اپنے سیاسی نظریات و تربیت کی بھینٹ چڑھانے میں بھی کوئی جھجھک اور عار محسوس نہ فرماتے۔ سوائے کچھ سنجیدہ افراد کے باقی تمام نامعقول ہی لگے اور یہ احساس بھی مزید پختہ ہوا کہ ہماری عوام ووٹ کس معیار اور "شعور" پر دیتی ہے۔

ایسے اہم ایوان اور معاملات پہ ایک صوبائی اسمبلی کا یہ حال ہے تو دیگر کی حالت کا اندازہ بھی اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ مراعات اور سہولیات سے لَیس ہمارے یہ نمائندے ہمارے مسائل کے حل کے لئے کس قدر سنجیدہ ہیں اور باہر عوام اور میڈیا کے سامنے کس طرح مسیحا بننے کی اداکاری سے گمراہ کرتے ہیں۔ الامان الحفیظ

مغرب کی نماز کے لئے مسجد گئے تو چنیوٹ سے رکن صوبائی اسمبلی مولانا الیاس چنیوٹی سے غیر رسمی ملاقات اور بات چیت ہوئی اور وہ بھی اپوزیشن ارکان کی اس غیر سنجیدگی پہ کافی افسردہ محسوس ہوئے۔

واپسی پہ میرے عزیز دوست فضل الرحمان کے والد آصف الرحمٰن آصف صاحب (جوکہ شعبہ قانون سازی سے وابستہ ہیں اور عرصہ دراز سے اسمبلی کے نشیب و فراز سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ دیانتدارانہ رائے بھی رکھتے ہیں) کی جانب سے پُر تکلف کھانے اور چائے سے لطف انداز ہوئے، ایوان کا وزٹ کیا اور اسمبلی کی بابت کئی امور زیرِ بحث رہے۔

Check Also

Gird O Garma Haye Multan

By Imran Kharal