Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Asif Jami
  4. Hamara Gaun Burj Attari Aur Hum

Hamara Gaun Burj Attari Aur Hum

ہمارا گاؤں "برج اٹاری" اور ہم

وطن اور مٹی سے محبت فطری و ایمانی تقاضہ ہے اور انسان چاہے دنیا کے جس کونے میں پہنچ جائے لیکن جائے پیدائش اور جنم دھرتی سے اسکی وابستگی اور لگاؤ کبھی کم نہیں ہوتا۔ وہ گلیاں، وہ چوبارے کبھی اسکی یاداشت سے محو نہیں ہوپاتے جہاں اسکا بچپن گزرا ہوا، اسی الفت اور محبت کا اظہار ہمارے گاؤں کے ایک 90 سالہ بزرگ حاجی محمد اسحاق صاحب اپنے تاثرات اور جذبات کا اظہار یوں فرماتے ہیں اور انکی فرمائش پہ وہ احساسات آپکے پیشِ نظر ہیں!

"لاہور سے شرقپور، مانگٹا نوالہ، جڑانوالہ، لائل پور (موجودہ فیصل آباد) جھنگ اور بھکر تک لے جانے والی قدیم شاہراہ پر لاہور سے 16 کلومیٹر دور واقع برج اٹاری میرا گاؤں ہے۔ آج سے ایک سو سال پہلے سےشیخو پورہ ضلع اور شاہدرہ (موجودہ فیروزوالا)تحصیل میں واقع ہے۔ سن 1924ء میں ضلع شیخوپورہ کا ڈپٹی کمشنر جو کہ انگریز تھا، شیخوپورہ سے شرقپور شریف نالہ ڈیک کے پُل کا افتتاح کرنے آیا۔ راستے میں برج اٹاری رُکا اور یہاں کے ملک مولا بخش چوہان سے ملاقات کی اور گاؤں جس میں صرف لڑکوں کے لیے پرائمری سکول تھا، لڑکوں کے لیے مڈل سکول لڑکیوں کے لیے پرائمری سکول اور رورل ڈسپنسری کے قیام کا اعلان کیا۔ آجکل لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہائی سکول قائم ہیں۔

ہمارا گاؤں تحصیل اور ضلع میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں کے وسیع و عریض لہلھاتے کھیت، غلّہ اُگلتےکھلیان اور پھلوں سے بھرے باغات ہمارے گاؤں کی شان تھے۔ یہاں کی خوراک یہیں کی پیداوار گندم، مکئی چنا، جو، جوار، باجرہ اور دھان (مونجی) سے چاول بھی دستیاب تھا۔ تمام اجناس کافی مقدار میں پیدا ہوتی تھیں اور باہر سے کچھ بھی نہیں منگوانا پڑتا تھا۔ گنّا یہاں پیدا ہوتا تھاجس سے ہم گُڑ اور شکربناتے تھے۔

پھلوں میں امرود سنگترہ، میٹھا، آڑو، آم اور بیر یہاں کی شناخت تھی۔ گائے اور بھینسوں کا تازہ اور خالص دودھ ملتا تھا۔ یہاں کے کسان، ہنر مند اور مزدور بہت محنتی تھے۔ یہاں کے ہنر مند مقامی ضرورت کی اشیاء کھیتی باڑی کا سامان، کنوئیں سے پانی نکالنے والے آلات بار برداری کے لئے گاڑیاں، گھوڑے کا تانگہ، ٹم ٹم اور گدھا گاڑیاں خودبنا تے تھے۔ یہاں کا لباس یہیں کے بُنے ہوئے کھدر سے بنایا جاتا گویا ضرورت کی ہر چیز مٹی کے برتن، پاؤں کے جوتےیہیں تیار ہوتے تھے۔ نیز مقامی طور پر ضرورت کی ہر چیز دستیاب تھی۔

پاکستان معرض وجود میں آنے والی پہلی اسلامی سلطلنت کا قیام رمضان المبارک میں لیلتہ القدر اور جمعۃ الوداع جمعرات اور جمعہ14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی گھڑی ہوا رات بارہ بجکر ایک منٹ پر مصطفیٰ علی ہمدانی صاحب نے یہ اعلان کیا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ دوسرے دن قائد اعظم رحمتہ للہ علیہ نے اعلان فرمایا کہ بھارت 15 اگست کو یوم آزادی منائے گا، مگر ہم ایک دن پہلے 14 اگست کو یوم آزادی منائیں گے۔ چنانچہ یومِ آزادی پاکستان 14 اگست 1947ء قرار پایا۔

میں (محمد اسحاق) اس وقت ڈسٹرکٹ بورڈ ورنیکلر مڈل سکول کا پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ لمحات ناقابل فراموش ہیں، ہمارے ہیڈ ماسٹر فضل احمد صاحب کی زیرِ نگرانی پورے سکول نے پہلا یومِ آزادی خوشی سے منایااور سڑک پر جلوس کی صورت میں اس کا اظہار کیا۔ 15 اگست کی رات کو ہم نے اپنے سکول کی عمارت کو مٹی کے دیوں میں سرسوں کا تیل ڈال کر روشن کیا ہر فرد خوشی سے سرشار تھا۔

صدر ایوب خان کے دور میں ہمارے گاؤں کو یونین کونسل کا درجہ ملااور اس کے پہلے چیئرمین محمد افضل خان مرحوم بنے۔ انہوں نے گاؤں میں کافی ترقیاتی کام کروائے۔ نالیاں پکی کروئیں اور کچی راہوں سے گزرنے والی نالیوں پر پُل بنوائے۔ اس کے بعد 1964ء میں ملک محمود احمد خاں یونین کونسل کے چیئرمین بنے انھوں نے اور زیادہ ترقیاتی کام کروائے۔ گلیوں اور کچے راہوں پرسولنگ لگوائے، زچہ بچہ سنٹر قائم کیا۔ گاؤں کے تما م لوگوں سے اچھے تعلقات بنائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ برج سے تشریف لائے۔

قیاس کے پیشِ نظر اس گاؤں کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بُرج کسی بھی سڑک پہ آگے کے رستے کی نشاندہی و آگہی کے لئے موجود ہوتے ہیں یہاں بھی ایک برج موجود تھا جس پہ آگے کے سفر کے متعلق معلومات موجود تھیں اورجھونپڑی کو پنجابی میں ٹارِی کہتے ہیں بھی یہیں موجود تھی جو پھر بگڑتے سنورتے اٹاری کی شکل اختیار کرگیا یوں برج اور ٹاری کے ایک ہی جگہ موجود ہونے کی وجہ سے یہ برج اٹاری کے نام سے مشہور مستعمل ہونے لگا۔ اس زرخیز دھرتی سے کافی نامور لوگ نکلے ہیں، لاہور میونسپل کارپوریشن کے سیکٹری چوہدری غلام رسول مرحوم، ضلع شیخو پور کے ڈسٹرکٹ سپریٹنڈٹ چوہدری محمد شریف مرحوم، ہمارے گاؤں کی ہردلعزیز شخصیت سید منور علی شاہ محکمہ واپڈا میں بہت بڑے افسر رہ چکے ہیں۔

پاکستان ریلوئے بورڈ اسلام آباد کے سیکٹری میاں محمد دین مرحوم اسی گاؤں کے باشندے تھے۔ یہاں سے ڈاکٹر حبیب اللہ بھی محکمہ صحت میں ضلع شیخوپورہ کے انچارج سی ڈی سی آفیسر رہے ہیں۔ احمدحسین چوہان ریٹائرڈ سینئر سپرینٹنڈنٹ پولیس گوجرانوالہ، چوہدری سجاد احمد بھٹی انکم ٹیکس آفیسر ضلع شیخوپورہ جو ابھی حیات ہیں کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے۔ شیخ رشید احمد مرکزی وزیرِصحت پیپلز پارٹی 1970ء بھی ہمارے سکول کے ہی طالب علم تھے۔

آج کل ملک شفقت محمود چوہان سابقہ صدر لاہور ہائی کورٹ بار اور موجودہ ممبر پاکستان بار کونسل بھی ہمارے ہی گاؤں سے ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس یہاں سے اور بھی لوگ اچھی اچھی ملازمتوں پر فائز رہے ہیں اور آج کل بھی پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکلاءمختلف سرکاری محکموں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد کے دیہاتوں سے بھی کئی لوگ اچھی اچھی ملازمتوں پر فائز رہے ہیں انھوں نے بھی ہمارے گاؤں کے گورنمنٹ سکول سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔

مین بازار چوہاناں خورد کی مرکزی مسجد کی تعمیرِ نو 1952ء میں ملک محمد افضل خان اور میاں غلام محمد کی زیرِ نگرانی سارے گاؤں نے مل کر کرائی اور موجودہ مسجد کی تعمیر ملک محمد افضل کے بیٹے حاجی محمد ایوب اور راقم محمد اسحاق نے مل کر 1994ء سے دوبارہ تعمیر نو کا ارادہ کیا اور 6 اپریل 1996ء کو پرانی مسجد کو شہید کرکے موجودہ مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا جوکہ پورے گاؤں کی پُر خلوص مدد اور ہمت سے ابھی تک جاری ہےاور مسجد احاطہ میں بہت زیادہ توسیع ہو چکی ہے۔

مسجد میں ماشااللہ لڑکوں اور لڑکیوں کو ناظرہ قران پڑھانے کے لیے نمازِ فجر کے بعد کلاسز لگائی جارہی ہیں جس میں تقریباً 175 سے 200 تک بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور 10 سے زائد حفاظِ کرام ان کو تعلیم دے رہے ہیں۔ حفظ کی دو کلاسیں جس میں تقریباً 35 بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اسی مسجد میں قائم ایک قدیم و معروف دینی ادارے سے عالمِ دین بھی پیدا ہور ہے ہیں۔

ہمارے گاؤں کے ایک فرد اور یہیں سے تعلیم حاصل کرنے والے ہونہار طالب علم محمد قاسم آصف جامی نے درسِ نظامی کے پہلے سال سے دورہ حدیث تک تمام اسلامی علوم کے امتحانات میں پورے پاکستان کے مدارس میں چار دفعہ پہلی پو زیشن حاصل کرکے گاؤں کا نام روشن کیا ہے اور اب مفتی کورس کے ساتھ ساتھ ایم فل اسلامیات بھی کر رہے ہیں۔ عمرے کی سعادت کے علاوہ ملکِ شام اور بحرین کےعلمی و تحقیقی دورے بھی کررکھے ہیں اور بھی ملکی سطح پر کئی انعامات حاصل کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ 12 ربیع الاول کے دن عید میلاد النبی ﷺ یہاں خصوصی طور پرمنائی جاتی ہے۔ ایک فقید المثال اورعظیم الشان محفلِ میلاد بھی منعقد کی جاتی ہے جس میں اردگرد کے 50 سے زائد گاؤں اپنے اپنے علاقوں سے جلوس لے کر اسی گاؤں میں شامل ہوتے ہیں۔ اور حسبِ توفیق ان میں تبرک اور لنگر بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کے رحم وکرم کی بدولت ہمارے اس گاؤں کو علاقہ میں ایسا مقام حاصل ہے کہ پورے روڈ پہ یہ ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔

ہمارا گاؤں لاہور سے نزدیک ہے اور شیخوپورہ سے دور ہے مگر دونوں اضلاع کی طرف سے یہاں پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ برلبِ سڑک ہے اور نئے تعمیر ہونے والی کئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے درمیان واقع ہے لیکن گندگی سے بھرپور ہے۔ صاحبِ اقتدار لوگوں سے درخواست ہے کہ اس کے گندے پانی کے نکاس اور صفائی پر توجہ دی جائے اور گاؤں کی صفائی کا انتظام جائے۔ علاقے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ڈگری کالجز کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ علاقہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہو چکا ہے اور بچوں اوربچیوں کو تعلیم کے لیے لاہور جانا پڑتا ہے۔

کثیر آبادی کی ضروریات کے لیےیہاں پر بہترین ہسپتال جس میں زچہ بچہ، ایمرجینسی اور صحت عامہ کے علاج معالجہ کی خصوصی سہولیات موجود ہوں، کی بھی اشدضرورت ہے۔ محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کی زمین یہاں موجود ہے جو ویران پڑی ہوئی ہے۔ لائیبریری کا قیام بھی ناگزیر ہے اور ٹرانسپورٹ کے لئے سپیڈو بس سسٹم بھی اس روڈ کی ضروریات میں سے ہے۔ اس گاؤں اور علاقہ کے نو جوانوں، دانشوروں اور بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی بقا اور خوشحالی کے لئے کردار ادا کریں اور اپنے گاؤں کو مثالی بنانے کے لیے بھی جدوجہد کریں۔ "

Check Also

Ye Bacha Kis Ka Hai?

By Rehmat Aziz Khan