Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Orya Maqbool Jan
  4. Sub Acha Hai Ki Reportain Aur Mulk Ka Zawal

Sub Acha Hai Ki Reportain Aur Mulk Ka Zawal

"سب اچھا ہے" کی رپورٹیں اور ملک کا زوال

اس نے 22 اور 23 مارچ 1969ء کی درمیانی شب اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کر لیا۔ 25 مارچ کو گیارہ سالہ اقتدار پر قابض ایک جرنیل کو جو حسن اتفاق سے فیلڈ مارشل بھی تھا، قوم سے خطاب کا آخری موقع دیا گیا۔ رُندھے ہوئے گلے اور ڈوبتی ہوئی آواز میں اس نے امن عامہ کی خراب صورت حال کا جائزہ لیا، چند مہینے پہلے جس دس سالہ ترقی کا جشن منایا گیا تھا، اسی مملکت خداداد پاکستان کی معاشی بدحالی کا رونا رویا اور پھر تمام سرکاری اداروں کے زوال کا ماتم کرنے کے بعد اس نے قوم کو مخاطب کرکے کہا کہ میں نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

جنرل ایوب خان کے ایوانِ صدر سے نکلنے کے بعد اس ملک کا اقتدار، اب ایک فارسی بولنے والے جرنیل کے قبضے میں آ گیا، جس کے آباؤاجداد کچھ عرصہ قبل ایران سے ہجرت کرکے پشاور منتقل ہوئے تھے۔ اس کے دادا نے انگریز کی وفادار فوج میں بھرتی ہو کر صوبیدار میجر کے عہدے تک ترقی کرلی، مگر وہ انگریزوں کی نظروں کو ایسا بھایا کہ اسے وائسرائے کے اے ڈی سی کے مرتبے پر فائز کر دیا گیا۔ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنرل یحییٰ خان نے 1938ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پھر یہی فوج کی نوکری اسے ایوانِ صدارت کے دروازے تک لے آئی۔ وہ اس مملکت خداداد پاکستان جو کبھی مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل ہوا کرتی تھی، وہ اس کا آخری صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا۔

متحدہ پاکستان کے اس آخری حکمران نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے کے ٹھیک ایک دن بعد، یعنی 26 مارچ 1969ء کو قوم سے خطاب کیا۔ میرے بدنصیب ملک کی زبوں حالی کا نوحہ سنایا اور اس ابتری کے عالم میں، قوم کا مسیحا بننے اور معاشی دلدل سے نکالنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اس نے ایک ایل ایف او (Legal Frame work Order) پیش کیا۔ اس ایل ایف او کے تحت آئندہ منتخب ہونے والی آئین ساز اسمبلی کے اراکین کو پابند کیا گیا تھا کہ تم نے منتخب ہونے کے بعد آئین کو ایل ایف او میں دیئے ہوئے نکات اور بتائی گئی بنیادوں کے مطابق ہی بنانا ہے۔ اس لیے کہ ایسا کرنا صدرِ پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد یحییٰ خان کی دی گئی قومی فکرکے مطابق لازم ہے۔

یہ نکات کوئی اتنے بُرے بھی نہیں تھے کہ جن پر آنے والے اراکین اسمبلی کا یقین اور ایمان نہ ہوتا، مگر اس ایل ایف او کے آرٹیکل 28 کے مطابق اقتدار کے نشے میں ڈوبے اس شخص نے مطلق العنانی اور فردِ واحد کی حاکمیت کا ایک عجیب و غریب تصور پیش کیا تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق نئی منتخب آئین ساز اسمبلی حلف اٹھانے کے 120 دن کے اندر اندر ملک کا آئین یحییٰ خان کے دیئے گئے ایل ایف او کے خطوط کے مطابق بنائے گی اور پھر اس آئین کو صدرِ مملکت، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد یحییٰ خان کو منظوری کے لیے بھیجے گی۔ اگر صدر نے منتخب اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کی منظوری نہ دی تو پھر اسمبلی اپنا اجلاس کبھی نہیں بلا سکے گی، بلکہ صدر کی نامنظوری کی صورت میں اسمبلی خودبخود تحلیل ہو جائے گی۔

یہ وہ نکتہ تھا جس پر مشرقی پاکستان کے سیاستدان ایک دَم چیخ اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کی منتخب کردہ اسمبلی کی براہِ راست توہین ہے۔ یہ ایل ایف او، اسمبلی اور عوام کی قیادت کی بالادستی کو ختم کرنے کی ایک بھر پور سازش ہے۔ اس ایل ایف او کے باوجود جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاستدان الیکشن میں حصہ بھی لیتے رہے اور ایل ایف او کے خلاف تقریریں بھی کرتے رہے۔ سیاستدانوں کی تقریروں میں جوش بھی تھا اور ولولہ بھی۔

سب سے زیادہ اعتراض ایل ایف او کے آرٹیکل 27 پر تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین اور ایل ایف او کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوا تو پھر اسے صدرِ پاکستان ہی حل کریں گے اور ان کا فیصلہ آخری ہوگا۔ مشرقی پاکستان کے سب سیاستدان شہروں میں تقریر کرتے ہوئے یہی کہتے کہ اس نکتے سے اس بات کی بُو آتی ہے کہ فوج عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل نہیں کرے گی، اور ان کا خوف کس قدر سچ تھا۔ الیکشن کے آغاز میں ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں لاکھوں لوگوں کے پُرجوش نعروں کا جواب دیتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے گرجتے ہوئے کہا میں ایل ایف او کو الیکشن ختم ہوتے ہی اسی پلٹن میدان میں پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔

اس کے بعد کی کہانی سب جانتے ہیں۔ الیکشن ہوئے، عوامی لیگ اکثریت میں آ گئی۔ 3 مارچ 1971ء کو اس متحدہ پاکستان کی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ کی سرزمین پر بلایا گیا اور پھر ایک دلگداز داستان اور شرمناک المیے کا آغاز ہوگیا۔ یحییٰ خان اور بھٹو گٹھ جوڑ نے مجیب الرحمن سے مطالبہ کیا کہ پہلے آئین پر اتفاق کرو پھر اجلاس ہوگا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوگیا۔ ایل ایف او کی تقدیس کے سامنے منتخب اسمبلی کی حیثیت ایک پرِکاہ کے برابر کر دی گئی۔ 25 اور 26 مارچ کی درمیانی رات آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہوا۔ شیخ مجیب نے کہا تین لاکھ لوگ مارے گئے۔ جنرل ٹکا نے کہا نہیں، ہم نے تو صرف 34,000 مارے ہیں۔ یوں آگ اور خون میں ڈوبی ہوئی اس کہانی کے آخر میں میرا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ مگر اقتدار پر قابض طاقتور قوتوں نے مجیب الرحمن کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ پلٹن میدان میں کھڑے ہو کر ایل ایف او کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا۔

میرے ملک کی تباہی اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے اس قصے میں ایک ذکر ایسا بھی ہے جو ہمارے ملک کی زخم زخم تاریخ میں آج بھی ویسے ہی چلتا چلا آ رہا ہے۔ یہ ان اداروں کا تذکرہ ہے، ان افراد کا ذکر ہے جو حکمرانوں کو بدترین ملکی حالات میں، مسلسل یہ یقین دلاتے رہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ سب مٹھی بھر شرپسند ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں، اگر ان کو کچل دیا جائے تو پھر آپ تاحیات راج کریں گے۔ یہ ایل ایف او اور یہ چھ نکات جیسے سیاسی معاملے تو عوام کا مسئلہ ہی نہیں ہیں۔ عوام کا مسئلہ تو بھوک ہے، بیروزگاری ہے، تعلیم ہے۔ اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل کمال متین الدین نے اپنی کتاب "Tragedy of Errors" میں لکھا کہ جب آرمی ایکشن ہو رہا تھا، کشت و خون کا بازار گرم تھا، تو اس دور کی تمام خفیہ ایجنسیاں"سب ٹھیک ہے" کی رپورٹیں بنا کر پیش کر رہی تھیں۔

ان رپورٹوں میں درج ہوتا تھا کہ یہ صرف چند سیاستدان ہیں جنہوں نے شور مچا رکھا ہے، یہ اب کچلے جا چکے ہیں، عوام میں سے کوئی بھی ان کی بات پر کان نہیں دھرتا، لوگ اب پُرسکون ہیں۔ آپ کے آرمی الیکشن سے لوگوں کو سکون ملا ہے۔ عوام اس سیاست کے دھندے سے دُور رہنا چاہتے ہیں۔ ان خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں پر تصدیق کی مہر مغربی اور مشرقی پاکستان کے وہ سیاستدان لگا رہے تھے جو شیخ مجیب کے مخالف تھے اور الیکشنوں میں اسے شکست نہیں دے سکتے تھے۔ یہی رپورٹیں تھیں جنہوں نے حکمرانوں کو حوصلہ دیا اور وہ عوام کو اور قوت سے کچلنے لگ گئے۔

25 اور 26 مارچ کی درمیانی رات ایک ایسا اندھیرا چھایا کہ پھر 16 دسمبر تک حقیقت کا سورج طلوع نہ ہو سکا مگر جب یہ نکلا تو وہ اتنا خون آشام تھا کہ میرے ملک کے دولخت ہونے کا فیصلہ تحریر ہو چکا تھا۔ آج بھی جب 16 دسمبر 1971ء کو یاد کرتا ہوں تو دن بھر آنسو لیے سوچتا ہوں کہ کاش یہ خطہ جسے ہم اس وقت مغربی پاکستان کہتے تھے، اس کے سیاست دان اور عوام بھی اسی طرح ایک مطلق العنان صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی عقل کل کے سامنے ویسے ہی کھڑے ہو جاتے، جیسے مشرقی پاکستان کے لوگ اور سیاست دان کھڑے ہوئے تھے۔

کاش مغربی پاکستان کے لوگ بھی یحییٰ خان سے یہ کہہ دیتے کہ تمہیں ان 13 کروڑ لوگوں کی رائے کی توہین کرنے کی اجازت کس نے دی ہے۔ کاش ہم مشرقی پاکستان والوں کی طرح جمہوری سوچ رکھ کر ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے۔ کاش ہم مجیب الرحمن کو پلٹن میدان میں ایل ایف او کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرنے دیتے تاکہ میرا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچ جاتا۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry