Tashkeel e Nao
تشکیل نو
پیچھے جائیں اور گہرائی سے قدیم انسان کی نظریات و نفسیات پر تفکر کریں تو آپ کے مشاہدے میں یہ بات آئے گی۔ قدیم انسان کہتا تھا زیوس ہمارا آسمانی خدا ہے جو بارشیں بھیجتا ہے اور آج ہم آرٹیفیشل بارشوں کا طریقہ جانتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں اکثر آرٹیفیشل بارشیں کی جاتی ہیں یہ ہم نے ثبوت پیش کرکے خود کو دیوتا ثابت کیا ہے۔
قدیم زمانے میں جب سمندروں میں خشک سالی ہوتی تھی تو عورتوں کو زندہ سمندروں کی میں بطور نظرانہ پھینک کر انسان اپنے دیوتا کو خوش کرتا تھا بدلے میں بارشوں کی دعائیں کیا کرتا تھا۔ آج ہم نے پانی ذخیرہ کرنے کے مختلف طریقے دریافت کرکے خود کو دیوتا ثابت کیا ہے۔ آج انسان مختلف اعضاء ٹوٹنے کے بعد نئے اعضاء لگا کر بھی خود کو دیوتا ثابت کرچکا ہے۔
ہمارے اجداد الف لیلوی عجیب و غریب باتوں پر یقین رکھتے تھے ہم نے ٹیلیفون ایجاد کرلیا جو کہ ہمارے اجداد کے وہم میں بھی نہیں ہوگا۔ ہمارے اجداد ستاروں کو دیکھتے تھے راستے بناتے تھے اور ہم نے آج ٹیکنالوجی سے یہ مکمل زمین گرفت میں کرلی ہے، قدیم انسان چاند کو دیوتا سمجھتا تھا آج ہم نے وہاں اپنا پاؤں رکھ دیا ہے اور محسوس کیا کہ یہ کوئی دیوتا نہیں ہے۔
آنے والا انسان مکمل ٹیکنالوجی سے لیس ہوگا اور جو میں آج اپنے اجداد پر لکھ رہا ہوں نجانے وہ کل ہمارے بارے میں کیا کچھ لکھے گا۔ ہمارے نظریات پر کیا کچھ کہے گا جن نظریات پر ہم مرنے اور مارنے کے لیئے تیار رہتے ہیں ایک دوسرے کو۔ شدت پسندانہ سوچ اور نظریات ترک کر دینے چاہییں تاکہ کم از کم آنے والے انسان ہمارے بارے میں یہ نہ لکھیں کہ ہم مکمل انسان نہیں تھے بلکہ حیوانوں سے ارتقاء کر رہے تھے جو ادنیٰ سے نظریاتی فرق پر ایک دوسرے کو قتل تک کردیتے تھے۔ ہمیں جذباتیت سے نکل کر عقل اور عقلیت پسندی کی جانب توجہ کی ضرورت ہے اور ہر نظریہ کو عقل کے پیمانے پر رکھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
نئی تحقیق کے مطابق اب ہم ہومو سیپئین سے اگلے ارتقائی مرحلہ پر ہیں یعنی ہم جیسے انسان اب ایسے ہونگے جیسے ہمیں دوسروں جانوروں سے برتری ہے۔ ٹرانس ہیومن میں دراصل انسان کی تمام تر کمزوریاں ختم کردی جائیں گی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اب خود ہر چیز کا فیصلہ کرلے گی۔ دوسرا فلکیات کے سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ ٹرانس ہیومن کائنات میں کسی بھی جگہ پر جا سکے گا۔ فریڈرک نطشے نے پچھلی صدی میں ubermensch کا فلسفہ پیش کیا تھا اُسی سُپر ہیومن میں بدلنے والے ہیں۔ ارتقائی سفر کو خود تیز کرنے لگے ہیں ہم یہ کرنے پر قادر ہوچکے ہیں اور اس پر تجربات بھی کیئے جا چکے ہیں۔ ایک ناول پچھلی صدی میں فکشن کے طور پر لکھا گیا تھا جس کا نام Cyborg تھا جس میں"پوسٹ ہیومن" کے بارے بتایا گیا تھا۔ اس وقت وہ فکشن مکمل طور پر حقیقت اختیار کر چکا ہے۔ ماضی کا فکشن ہمیشہ مستقبل کی حقیقت ثابت ہوا ہے۔
اب مزید خیر و شر کی بحث بھی نہیں ہوگی۔ ایک محدود گروہ سے جُڑے سائنسدان اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ موت بھی نہیں ہوگی ٹرانس ہیومن کو لافانی کیا جائے گا۔ انسان اپنا جسم خود بنا سکے کا بڑھاپہ نہیں آئے گا اس کو سمجھنے کیلئے کسی بھی ویڈیو گیم کے کریکٹر کو تصور کرلیجیۓ۔ اب ہم انسان ہی انسانی دماغ کو منتقل کردیں گے کمپیوٹر سسٹم میں جہاں وہ ہمیشہ ایکٹیو رہے گا اس کے متعلق مزید تحقیقات پڑھنے کے لیئے "Transhumanism" کے حوالے سے تحقیقات موجود ہیں اور مزید تحقیق جاری ہے۔ ہمیں اپنے نظریات پر تشکیل نو کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہم شائد تاریخ کے صفحات تک محدود ہونگے جو بطور عبرت یاد رکھے جائیں گے۔