Jadeediat Aur Insan
جدیدیت اور انسان
بقول اقبال زندگی حرکت کا نام ہے ساکن ہو جانا موت ہے، جدیدیت بذات خود کچھ نہیں ہے یہ ہم ہی ہیں جو مسلسل ارتقاء کر رہے ہیں، حرکت میں ہیں یہ جدیدیت جس کو آج ہم سمجھتے ہیں کل یہ بھی نئے نظریات میں بدل جائے گی۔ آپ جدیدیت پر تبصرے کرتے کرتے برا بھلا کہہ کہہ کر وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرتے ہیں، ایسا ہی جیسے کوئی شخص بیٹھا رو رہا ہو کہ زندگی بڑھ رہی ہے اس کو روک سکتے ہیں؟
اپنے دن کم کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے آپ مسئلہ کا حل نہیں تلاش کرتے ہیں بلکہ مسئلہ پر واویلہ کرتے ہوئے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ ان تمام تر مسائل کا حل یہی ہے کہ ایک طرف جدیدیت کو قبول کریں اور خود کو انفرادی طور پر فطرت کے قریب کریں، ہماری بقاء اسی میں ہے کہ ہم فطرت کے قریب ہوں ہمارا ماضی بتاتا ہے کہ ہم نے ارتقائی مراحل میں ایک عرصہ فطرت کے قریب گزارا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آرٹ و استھیٹکس کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور honest being زندگی جیئے جو کچھ ہم کر رہے ہیں ہمارا نظریہ بھی وہی ہونا چاہیے۔ ہمارے نظریات ہمارے قول، فعل میں تضاد پیدا کر رہے ہیں۔ ہم جس نظریہ کو قبول کرتے ہیں اسی کے ہی خلاف عمل پیرا ہیں، جب قول و فعل میں تضاد ہوگا تو ڈیپریشن جیسی بیماریاں پیدا ہونگی لازمی ہونگی۔
ہمیں خود اپنی ذات سے پہلے سوال کرنا چاہیے کہ ہم کیا ہیں؟ ہم جس نظریات کو قبول کر چکے ہیں ان کو عمل میں لا رہے ہیں؟ اگر نہیں لا رہے تو پھر دو ہی صورتیں ہیں ایک اپنا نظریہ بدل ڈالیں دوسرا یہ کہ خود پر توجہ دیں اور خود کو نظریات کا پابند بنائیں۔ معاشرے کا وجود فرد سے قائم ہوتا ہے آپ بذاتِ فرد خود کو اس طرف متوجہ کریں تاکہ یہ جو مسائل ہمیں علمی و نظریاتی ارتقاء کے عوض مل رہے ہیں ان کا سدِباب کریں۔ جدیدیت بذات خود مسئلہ نہیں ہے یہ تو ہمارے نظریاتی ارتقاء کا نتیجہ ہے، جیسے آپ آنے والے دن کو نہیں روک سکتے ویسے ہی نئے نظریات کو نہیں روک سکتے ہیں۔
یہ کر سکتے ہیں کہ درست سمت کا تعین کریں اور نئے پیدا ہونے والے مسائل و محرکات کا سدباب کریں، آپ اپنی عمر نہیں روک سکتے یہ بڑھتی رہے گی آپ کو بڑھتی عمر کے مسائل سے روشناس ہونا چاہیے، پھر اس پر کام کرنا چاہیے جیسے غذاؤں کا چناؤ، مختلف ورزشیں اور دوسرے طریقے جو ہمیں مسائل سے دوچار ہونے سے محفوظ رکھیں۔ باقی جسے بھی برا بھلا کہتے رہے ہیں نہ ہی نئے نظریات رکیں گے نہ ہی ارتقائی عمل کبھی روک پائیں گے حرکت میں ہے، حرکت میں رہے گا جب تک دنیا قائم ہے۔