1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nishat Gurmani/
  4. Gardish e Doran

Gardish e Doran

گردشِ دوراں

کیا ہیں یہ سانسوں کی طنابیں، ہنگامہ ہے برپا سُنتے ہیں دیکھتے ہیں، آمد پر خوشیاں مناتے ہیں، مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں، دعوتیں منعقد کرتے ہیں جیسے کوئی ایسی سانس لیتی شے کا ظہور ہوا ہو گیا ہو جو ہمیشہ یوں ہی چلے گی جس کا دل یوں ہی دھڑکے گا ہمیشہ۔

دن گزرتے ہیں، وقت بڑھتا ہے، عمر بدلتی ہے، بچہ سے جوانی تک اس عمر میں وہ سانس لیتی شے بڑوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے، انھیں کے حکم کی تابعداری میں پروان چڑھتی ہے کھلتی ہے نکھار آتا ہے، جمال آتا ہے جلال آتا ہے جوانی کے جذبات سے روشناس ہوتی ہے وہ روح، ان جذبات کا بھی ایک الگ سمندر ہوتا ہے کہ ہر شے سے بڑھ کر ان جذبات کی جستجو خواب و خیال میں جینے لگتی ہے، سانسوں کو نئے راستوں پر ہموار کرتی ہے۔

ان جذبات کو پھر کسی دوسری سانس لیتی روح کے حوالے کر دیتی ہے، ایک وقت گزارتا ہے وہ روحیں ایک نئی کائنات میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، الگ دنیا بسانے کی فکر کرتے ہیں، تسکین کے لمحات وصل کی ساعتیں نجانے کیا کچھ وہ روحیں مل کر اپنے وجود میں دریافت کرتی ہیں۔ مگر یہ کیا کہ اچانک ظلم و ستم کی گھڑی راہ میں پتھر لیئے ٹھہری ہوتی ہے، غم و الام کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔

وہ ساری عمارتیں سارے تصورات، وہ گھڑیاں وہ پل وہ لمحات نیز ہر شے بکھیرنے کی سازش میں یہ سارا جہاں لگ جاتا ہے۔ وہ دو روحیں ٹوٹنے لگتی ہیں، چیخنے لگتی ہیں مگر افسوس کہ تمام دکھ، یہ کائنات دکھ، یہ جہان دکھ، ہر صدا دکھ بن جاتی ہے سارا جہاں سارا محل ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ ہر چیز کی فراوانی ہر چیز لامحدود، ہر شے ہر تصور گماں سے کہیں بڑا مگر اس میں بسنے والی روحیں اتنی ہی تنگ بے حس، بے احساس، تنگ نظر، گھٹن کا سماں پیدا کر دیتی ہیں۔

کہ انت یہ ہوتا ہے کہ وہ روح جس کی آمد پر دعوتیں منعقد ہوئی تھیں خوشیاں رچائی گئیں تھیں اس روح کی پھلنے پھولنے کا وقت آیا تو وہی لوگ، وہی زمانہ ہی اس پر تنگ پڑ گیا۔ ایک گھڑی آئی کہ اس نے یہاں سے جانا بہتر سمجھا اور نجانے وہ یہاں کس حال سے گیا خدا کی رضا یا خود کی مرضی یا کسی اپنے کے الفاظ؟ اپنے وقت پر یا دوسروں کے تدبیر کیئے لمحہ پر؟ آہ یہ بیاں سے باہر ہے بس یہ آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے چلتا جا رہا ہے، گزرتا جا رہا ہے ہر آنے والا کل کو جانے والا ہے۔

قراۃالعین کیانی صاحبہ نے اس پُراسرار عالم کو چند لفظوں میں ایسے بیان فرمایا گویا سمندر کو جیسے کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔ کیانی صاحبہ فرماتی ہیں

شہرِ من ہزار خواہش، ہزار خوابوں کا آشیاں

ادھ کھلے زخم، پسِ در سلگتی آرائیاں

ہر جا ہے لہو و آگ، راکھ و خاشاک

ہراساں صورتیں، رائج باطل کا الاپ

اشیائے دیگر کی فراوانی

مگر وائے بر حال

کہ حق کم یاب۔

بقول ذٌوق کے۔

ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر

بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

Check Also

9 May Ki Maafi Nahi

By Saira Kanwal