Friday, 21 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nimra Ijaz
  4. Nai Nasal Ki Badalti Nafsiyat, Aik Haqeeqat Ya Aik Uljhan

Nai Nasal Ki Badalti Nafsiyat, Aik Haqeeqat Ya Aik Uljhan

نئی نسل کی بدلتی نفسیات، ایک حقیقت یا ایک الجھن؟

اگر ہم ایک دہائی اور پانچ سال پیچھے چلے جائیں تو زندگی کا ایک مختلف ہی رنگ تھا۔ خاندان کے بڑے فیصلہ کرتے، نوجوان سنتے اور مان لیتے، کامیابی کی تعریف ایک آمنے سامنے نتیجہ دیتا ہوا اعلیٰ ترین نوکری اور باعزت زندگی ہوتی اور رشتے وقت اور قربانی کے ساتھ تانے بانے بنتے۔ مگر اِن دنوں کی نسل ایک مختلف ہے۔ وہ پوچھتی ہے، وہ اپنا راستہ خود اپنانا چاہتی ہے اور وہ صرف جینا نہیں چاہتی بلکہ زندگی کو اپنے انداز میں جینا چاہتی ہے۔

یہ تبدیلی ایک فطری عمل ہے یا معاشرتی بگاڑ؟ کیا نئی نسل واقعی زیادہ باشعور اور خودمختار ہوگئی ہے، یا وہ روایات سے دور ہو کر بھٹک رہی ہے؟ آئیے، اس سفر کو قریب سے دیکھتے ہیں۔

آج کے نوجوان اپنا فیصلہ خود لینا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں کی پیروی کرتے ہیں، چاہے وہ سفر ہو، نئی کاروباری زندگی ہو، یا کوئی غیر روایتی فیلڈ میں کیریئر حاصل کرنے کا داخلی جذبہ۔

یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، لیکن کبھی کبھی یہ خودسری میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ والدین کے فیصلوں پر امتناع پرانی نسل کے لیے عزت کا سوال تھا، لیکن آج کے نوجوان اسے اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھتے ہیں۔ اس تصور نے والدین اور بچوں کے مابین ایک نیا خلا پیدا کر دیا ہے۔ جسے ہم انگریزی میں کمیونیکیشن گیپ کہتے ہیں۔ والدین اور نئی نسل کی زندگیوں میں بہت فرق ہے اور جو والدین اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ اپنے لیے اور بچوں کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔

اگر کوئی آج کی نسل کو جاننا چاہتا ہے تو اسے ٹیکنالوجی کی بولی سیکھنی ہوگی۔ بچوں کی بدلتی نفسیات کو سمجھنا ہوگا۔ موبائل فون، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ورلڈ ان کی زندگی کا اتنا ہی ضروری حصہ ہیں جتنا پرانی نسل کے لیے چائے کی پیالی۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور اسنیپ چیٹ نئی نسل کے لیے ایک حقیقت ہیں۔ وہ دنیا بھر کی خبریں اور ٹرینڈز سے چند سیکنڈ میں باہم جڑ جاتے ہیں۔

مگر اس آسانی کے ساتھ ایک نیا مسئلہ بھی پیدا ہوا ہے۔ حقیقی اور مصنوعی زندگی میں فرق مٹتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر دوسروں کی چمک دمک دیکھ کر خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی زندگی کسی فلمی کہانی جیسی ہونی چاہیے، جہاں سب کچھ پرفیکٹ ہو اور جب حقیقت مختلف ہوتی ہے تو وہ بےچینی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پہلے کے زمانے میں رشتے صبر، قربانی اور وقت مانگتے تھے۔ اب کے نوجوان جلد فیصلے کرتے ہیں، جلد جڑتے ہیں اور جلد الگ ہو جاتے ہیں۔ وہ رشتوں میں برابری چاہتے ہیں، جہاں دونوں کا احترام برابر ہو۔ جذباتی قربت ان کے لیے ضروری ہے، مگر وہ کسی پر اپنی آزادی قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اگر وہ کسی رشتے میں خوش نہیں ہیں، تو اسے ختم کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ سوچ کسی حد تک صحت مند ہے، مگر اس نے صبر اور رشتوں کو سنبھالنے کی روایتی خوبیوں کو بھی کمزور کر دیا ہے، جو ایک المیہ ہے۔

نئی نسل آزادی چاہتی ہے، مگر ساتھ ہی بےحد دباؤ میں بھی ہے۔ کامیابی کی دوڑ، سوشل میڈیا پر مثالی زندگی کا دباؤ اور دوسروں کی توقعات نے انہیں ایک مسلسل ذہنی تناؤ میں ڈال دیا ہے۔ ڈپریشن اور اینزائٹی کے کیسز بڑھ رہے ہیں، مگر زیادہ تر نوجوان اسے تسلیم کرنے یا مدد لینے سے گھبراتے ہیں۔ وہ سب کچھ جلدی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب کامیابی میں دیر لگتی ہے، تو وہ خود کو ناکام سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جنہیں ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ آج کی نسل زیادہ ذہنی الجھنوں کا شکار ہے۔

اب کوئی بھی صرف "سرکاری نوکری" کے خواب نہیں دیکھتا۔ نئی نسل کے خواب مختلف ہیں کوئی فری لانسنگ کرکے پیسے کمانا چاہتا ہے، کوئی یوٹیوب پر وی لاگ بنا رہا ہے، کوئی اسٹارٹ آپ لانچ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ سوچ بہت حوصلہ افزا ہے، مگر ساتھ ہی غیر یقینی صورتحال بھی بڑھا رہی ہے۔ نوکری کی حفاظت، مستقل آمدنی اور روایتی کیریئر کے تصورات بدل رہے ہیں، جس نے والدین اور بچوں کے درمیان ایک اور نیا اختلاف کھڑا کر دیا ہے۔

پہلے کے نوجوان سیاست اور سماجی مسائل پر زیادہ بات نہیں کرتے تھے، مگر آج کی نسل سوال کرنا جانتی ہے۔ وہ اپنے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات اور انسانی حقوق پر بحث کرتے ہیں۔ وہ روایتی نظریات کو چیلنج کرنے سے نہیں گھبراتے۔

یہ رجحان بہت مثبت ہے، کیونکہ ایک باشعور نسل ہی ایک بہتر معاشرہ بنا سکتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان مسائل کو صرف سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں یا حقیقت میں کوئی عملی قدم بھی اٹھاتے ہیں؟ کیا جو کچھ بھی سوشل میڈیا پر کیا جا رہا ہے وہ عملی زندگی میں بھی موجود ہے یا یہ صرف دکھاوا ہے نظر کا دھوکا ہے۔

صبر، انتظار اور تدریجی ترقی یہ الفاظ آج کی نسل کے لیے کم ہی معنی رکھتے ہیں۔ انہیں اس کا تھوڑی بہت دیر انتظار، چاہے وہ کامیابی ہو، شہرت ہو، یا خوشی ہو۔ نئی نسل ہر چیز لمحے میں حاصل کر لینا چاہتی ہے، ہر خواب کی تکمیل لمحوں میں چاہتی ہے۔ مستقل مزاجی کہیں دور جاتی نظر آرہی ہے۔ "لائکس" اور "فالوورز" کی دوڑ نے انہیں فوراََ کامیابی کا عادی بنایا ہوا ہے۔ یہ تصور نہ صرف ان کا صبر کم کر رہا ہے بلکہ حقیقی زندگی سے بھی دور دھکیل رہا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اس تبدیل ہونے والی سوچ کو سمجھیں اور اُنہیں صحیح سمت دینے میں مدد کریں۔ بچوں کو بالکل آزاد چھوڑ دینا بھی دانشمندانہ سوچ نہیں اور نہ ہی ان پر اپنی روایات تھوپنا۔ اعتدال میں رہتے ہوئے اور بدلتی دنیا کے اثرات کو سمجھتے ہوئے اگر نئی نسل کو پروان چڑھایا جائے تو وہ زیادہ کارآمد ثابت ہوں گے۔

شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں، کیونکہ آخر میں، چاہے پرانی نسل ہو یا نئی، سبھی کو ایک ہی چیز کی تلاش ہے محبت، عزت اور ایک بہتر زندگی۔

آپ کے خیال میں نئی نسل کی سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟

Check Also

Aashiqan e Imran Ke Liye Americi Wazarat e Kharja Se Aaya Pegham

By Nusrat Javed