Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nimra Bilal
  4. Saza Nahi Samajh Ki Zaroorat, ADHD

Saza Nahi Samajh Ki Zaroorat, ADHD

سزا نہی سمجھ کی ضرورت، ADHD

ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں توجہ کی کمی ذہنی خلفشار اور بے چینی معمول بن چکی ہیں۔ بچے ہوں یا بڑے بر طرف ذہنی بگاڑ جذباتی الجھنیں اور توجہ مرکوز کرنے میں ناکامی کا راج ہے۔ اس ذہنی افراتفری کی اصل جڑیں کہاں ہیں؟ کیا یہ محض ایک "بیماری" ہے جسے دوا سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ ایک تہذیبی المیہ ہے، جس کی جڑیں ہماری پرورش خاندانی نظام اور سماجی ڈھانچے میں پیوست ہیں؟

ڈاکٹر گیبور مائے ایک کینیڈین معالج اور مصنف نے اپنی معرکہ آرا کتاب Scattered Minds" میں اس مسئلے کو گہرائی سے کھنگالا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف "ADHD" یعنی Attention Deficit Hyperactivity Disorder کو ایک نئے زاویے سے دیکھتی ہے، بلکہ ہمارے عمومی ذہنی رویوں اور معاشرتی مسائل کی بھی عکاسی کرتی ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی کو عام طور پر ایک نیورولوجیکل (دماغی) عارضہ سمجھا جاتا ہے، جس میں دماغ کے وہ حصے جو توجہ، منصوبہ بندی اور جذباتی نظم و ضبط کے لیے ذمہ دار ہیں، پوری طرح متوازن کام نہیں کرتے۔ سائنسدانوں کے مطابق ADHD کی علامات دماغی کیمیا یعنی neurotransmitters جیسے dopamine اور norepinephrine کی کمی یا بے توازن سے بھی جڑی ہوتی ہیں۔ یہ کیمیکل انسانی توجہ، انعام کی توقع اور موٹیویشن سے گہرے تعلق رکھتے ہیں۔ MRI اور دیگر دماغی اسکینز سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ADHD کے شکار بچوں کے دماغ میں "prefrontal cortex" اور "executive function" سے جڑے حصے کمزور یا کم متحرک ہوتے ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ماٹے اس جسمانی فرق کو صرف جینیاتی یا پیدائشی نہیں مانتے، بلکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ سب ماحولیاتی اور جذباتی عوامل سے گہرے طور پر جُڑے ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق ابتدائی بچپن یعنی پیدائش سے 3 سال تک کا عرصہ بچے کے دماغ کی نشوونما کے لیے سب سے نازک وقت ہوتا ہے۔ اگر بچہ اس دوران جذباتی طور پر غیر محفوظ ہو، والدین سے جڑا ہوا محسوس نہ کرے، یا مسلسل بے توجہی، تناؤ یا لاپرواہی کا سامنا کرے، تو اس کے دماغ کی اعصابی ساخت متاثر ہو سکتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر بعد میں ADHD جیسی علامات پروان چڑھتی ہیں۔ ڈاکٹر ماٹے کہتے ہیں کہ بچہ اگر کسی ایسے ماحول میں پرورش پائے جہاں اس کی جذباتی ضروریات پوری نہ ہوں، تو اس کا دماغ، خود کو بچانے کے لیے کچھ حصے بند کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی عمل توجہ کی کمی اور جذباتی عدم توازن کی بنیاد بن سکتا ہے۔

پاکستان جیسے معاشرے میں والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت کم اور توقعات زیادہ ہیں۔ والدین بچوں کو بہترین اسکول، لباس اور سہولیات تو فراہم کرتے ہیں، مگر جذباتی موجودگی، تحفظ اور بے لوث توجہ بہت کم دیتے ہیں۔ گھر میں اکثر والد یا والدہ دونوں ملازمت یا گھریلو دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، جس کا اثر براہِ راست بچے پر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ماٹے کے مطابق بچہ صرف الفاظ سے نہیں، والدین کی جذباتی موجودگی سے سیکھتا ہے۔ اگر ماں باپ ہر وقت تناؤ، مصروفیت یا لاتعلقی میں ڈوبے رہیں، تو بچہ خود کو تنہا، غیر محفوظ اور ناپسندیدہ محسوس کرتا ہے۔ یہ وہ جذباتی محرومی ہے جو بچے کے دماغی افعال میں عدم توازن پیدا کرتی ہے اور وہ مسلسل حرکت، بے قراری اور توجہ کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں ایسی علامات دیکھ کر اکثر والدین بچوں کو سزا دیتے ہیں، شرمندہ کرتے ہیں یا ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں۔ اسکولوں میں اساتذہ بھی ایسے بچوں کو "توجہ نہ دینے والا"، "شرارتی" یا "ناکام" قرار دے دیتے ہیں۔ حالانکہ یہی وقت ہوتا ہے جب بچے کو سب سے زیادہ والدین اور اساتذہ کی ہمدردی، رہنمائی اور قربت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ADHD کو یہاں یا تو شرارت سمجھا جاتا ہے یا روحانی مسئلہ، جبکہ سچ یہ ہے کہ یہ ایک سائنسی و نفسیاتی کیفیت ہے جس کا بروقت علاج ممکن ہے بشرطیکہ والدین، اساتذہ اور معاشرہ اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرے۔

اس کے لیے سب سے پہلے والدین کو تربیت اور شعور دینا ہوگا تاکہ وہ بچے کے رویے کو سمجھ سکیں اور اس پر غیر ضروری ردعمل نہ دیں۔ ڈاکٹر ماٹے ADHD کے علاج میں محبت بھرے رشتے کو پہلی دوا سمجھتے ہیں۔ والدین کا بنیادی فرض یہ ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ "تم جیسے ہو، ویسے ہی قابلِ محبت ہو"۔ اس کے لیے والدین کو روزانہ تھوڑا وقت صرف بچے کے ساتھ خاموش بیٹھ کر، اس سے بات چیت، کہانی سننے یا سنانے میں صرف کرنا ہوگا۔ صرف پانچ دس منٹ روزانہ کی مکمل توجہ بھی بچے کی دماغی صحت پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔ پاکستان میں ایسے والدین کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے محض اپنی توجہ، نظم اور رویے کی تبدیلی سے بچوں کی توجہ، سیکھنے کی رفتار اور جذباتی توازن بہتر بنایا۔

ساتھ ہی اسکولوں اور اساتذہ کو ADHD پر تربیت دینا بھی لازمی ہے تاکہ وہ ایسے بچوں کے ساتھ ہمدردی اور انفرادی رہنمائی سے پیش آئیں۔ ADHD میں نیوروفیڈبیک، mindfulness اور دماغی ورزشیں مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں بشرطیکہ والدین مستقل ساتھ دیں۔ کچھ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ فطرت سے تعلق، کھلی فضا میں کھیلنا اور سکرین ٹائم کو محدود کرنا ADHD میں واضح بہتری لاتا ہے۔ ادویات بھی بعض شدید کیسز میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، مگر صرف دوا پر انحصار کافی نہیں۔ اصل علاج ایک مستحکم، محبت بھرا اور قابلِ بھروسہ تعلق ہے۔

ڈاکٹر گیبور ماٹے کی Scattered Minds صرف ایک سائنسی کتاب نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے، جو والدین، اساتذہ اور سماج کے ہر فرد کو خود سے سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ آیا ہم اپنے بچوں کی ذہنی اور جذباتی صحت کو سمجھتے ہیں یا صرف ان کی کارکردگی کو ناپتے ہیں۔ ہم میں سے ہر والدین کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارا طرزِ تربیت ہی تو وہ رکاوٹ نہیں جو ہمارے بچوں کو مکمل پن سے محروم کر رہا ہے۔ کیا ہم واقعی سنتے ہیں جب بچہ بولتا ہے؟ کیا ہم اس کے جذبات کی قدر کرتے ہیں یا صرف اس کی خامیاں گنواتے ہیں؟

بکھرا ہوا بچہ کبھی اکیلا نہیں بکھرتا، اس کے ساتھ اس کا ماحول، رشتے اور سب سے بڑھ کر والدین کا رویہ بھی بکھرتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے پُرسکون، توجہ مرکوز رکھنے والے، خوداعتماد انسان بنیں تو ہمیں سب سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ کیونکہ ایک پرسکون ذہن کی پہلی غذا دوا نہیں، ماں باپ کی بے لوث توجہ ہے۔ ADHD کا حل صرف کلینک میں نہیں، بلکہ گھر کے ماحول، والدین کے لہجے اور تعلقات کی گہرائی میں چھپا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو سنجیدگی سے لیں، تو شاید وہ بھی دنیا کو یکسوئی اور محبت سے دیکھ سکیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan